وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے (جوان) غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لئے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے، ان کے دل میں یوسف کی محبت بیٹھ گئی ہے، ہمارے خیال میں تو وہ صریح گمراہی میں ہے (١)۔
جس طرح خوشبو کو پردوں میں چھپایا نہیں جا سکتا عشق ومحبت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے گو عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اسے نظر انداز کرنے کی تلقین کی اور یقینا آپ کی زبان مبارک پر اس کا ذکر بھی نہیں آیا ہوگا۔ اس کے باوجود یہ واقعہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور مصر کی عورتوں میں اس کا چرچا عام ہوگیا۔ عورتیں تعجب کرنے لگیں کہ اگر عشق کرنا ہی تھا تو کسی بااثر ذی و جاہت انسان سے کیا جاتا یہ کیا اپنے ہی غلام پر زلیخا فریفتہ ہو گئی یہ تو اس کی بہت ہی نادانی ہے۔ ان غیبتوں کا پتا عزیز مصر کی بیوی کو بھی چل گیا۔