وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی (١) سے کہا کہ اسے بہت عزت و احترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں، یوں ہم نے مصر کی سرزمین پر یوسف کا قدم جما دیا (٢)، کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں۔
رب کا لطف کرم بیان ہو رہا ہے کہ جس نے آپ کو مصر میں خریدا اللہ نے اسے دل میں آپ کی عزت و وقعت ڈال دی۔ یہ شخص مصر میں کسی اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز اور بے اولاد تھا۔ اس نے لڑکے کی شکل و صورت، عادت و خصائل دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ غلام نہیں ہو سکتا، یہ تو کسی معزز خاندان کا ایک فرد ہے، جسے حوادث زمانہ نے یہاں تک پہنچایا ہے۔ لہٰذا اس نے اپنے گھر کا سارا انتظام اور کام کاج یوسف علیہ السلام کے سپرد کر دیا اور بیوی سے تاکیداً کہہ دیا کہ اسے غلام نہ سمجھو بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھو اور عزت ووقار سے رکھو یہ ہمارے لیے بہت سود مند ہو گا اور کیا عجب ہم اسے اپنا متبنٰی ہی بنا لیں۔ عزیز مصر کے ہاں سیدنا یوسف علیہ السلام کو اس طرح باوقار مقام حاصل ہو جانا اس مشکل کی طرف پہلا زینہ تھا جس میں آپ علیہ السلام کو پورے مصر کی حکومت اللہ کی طرف سے عطاہونے والی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کام لینے والا تھا اس کام کے لیے جس واقفیت، تجربے اور بصیرت کی ضرورت تھی وہ آپ کو عزیز مصر کے گھر میں مختار کی حیثیت سے رہنے سے میسر آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو خواب کی تعبیر کا علم بھی عطا فرمایا۔ اللہ کے ارادہ کو کون ٹال سکتا ہے۔ کون اس کے خلاف کر سکتا ہے۔ وہ سب پرغالب ہے۔ سب اس کے سامنے عاجز ہیں وہ جو چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ علم سے خالی ہوتے ہیں۔ اس کی حکمت اور اس کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔