وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بھی کر لائے تھے، باپ نے کہا یوں نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی میں سے ایک بات بنالی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔
اناڑی مجرم: کہتے ہیں کہ بکری کا بچہ ذبح کرکے یوسف علیہ السلام کی قمیض خون میں لت پت کر لی اور یہ بھول گئے بھیڑیا اگر یوسف علیہ السلام کو کھاتا تو قمیض کو بھی پھٹنا تھا ۔ قمیض ثابت کی ثابت ہی رہی جس کو دیکھ کر یوسف علیہ السلام کے خواب اور اپنی فراست نبوت سے انداز لگا لیا اور فرمایا کہ یہ واقعہ اس طرح پیش نہیں آیا ہے۔ جو تم بیان کر رہے ہو بلکہ تم نے اپنے دلوں سے ہی یہ بات بنا لی ہے۔ تاہم چونکہ جو ہونا تھا سو ہو چکا۔ اس لیے سوائے صبر کے کوئی چارہ اور اللہ کی مدد کے علاوہ کوئی سہارا نہیں ۔ صبر جمیل: اس صبر کو کہتے ہیں کہ مصیبت پڑنے پر انسان اسے ٹھنڈے دل سے برداشت کر جائے جزع فزع نہ کرے نہ کسی دوسرے سے اس کا شکوہ شکایت کرے۔ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے صرف یہی کیا کہ میری فریاد تو اللہ ہی سے ہے اور اسی سے میں مدد چاہتا ہوں۔ منافقین نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افہام و ارشاد میں فرمایا: ’’اللہ کی قسم میں اپنے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثال پاتی ہوں جس سے یوسف علیہ السلام کے باپ یعقوب علیہ السلام کو سابقہ پیش آیا اور انھوں نے صبر جمیل کہہ کر صبر کا راستہ اختیار کیا تھا۔‘‘ یعنی میرے لیے بھی سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں۔ (بخاری: ۲۶۶۱، مسلم: ۲۷۷۰)