فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پھر جب اسے لے چلے اور سب نے ملکر ٹھان لیا اسے غیر آباد گہرے کنوئیں کی تہ میں پھینک دیں، ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ یقیناً (وقت آرہا ہے کہ) تو انھیں اس ماجرا کی خبر اس حال میں دے گا کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں (١)
قرآن کریم میں یہ واقعہ نہایت اختصار کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اپنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق انھوں نے یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں پھنک دیا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی تسلی اور حوصلے کے لیے وحی کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تیری حفاظت ہی نہیں کریں گے بلکہ ایسے بلند مقام پر تجھے فائز کریں گے کہ یہ بھائی بھیک مانگتے ہوئے تیری خدمت میں حاضر ہوں گے اور تو انھیں بتائے گا کہ تم نے اپنے ایک بھائی کے ساتھ ایسا سنگ دلانہ معاملہ کیا تھا، جسے سن کر وہ حیران وپشیمان ہو جائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اگرچہ اس وقت بچے تھے لیکن جو بچے نبوت سے سرفراز ہونے والے ہوں ان پربچپن میں بھی وحی آجاتی ہے۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام پر آئی۔