اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ
یوسف کو مار ہی ڈالو اسے کسی (نامعلوم) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری طرف ہی ہوجائے۔ اس کے بعد تم نیک ہوجانا (١)۔
باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی انھوں نے یہ ترکیب سوچی کہ کسی طرح یوسف کو غائب کر دیا جائے یا مار ڈالا جائے یا پھر کسی دور دراز مقام میں اسے پہنچا دیا جائے تاکہ وہ وہاں سے واپس نہ آ سکے اس طرح وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ طے پایا کہ پہلے اپنی خواہش نفس تو پری کر لیں بعد میں توبہ کرکے نیک بن جائیں گے یہ وہ شیطانی چالیں تھیں جن کے متعلق حضرت یعقوب علیہ السلام کو پہلے سے ہی اندیشہ تھا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب تم لوگ یوسف کو ٹھکانے لگا دو گے تو اس کے بعد از خود ہی تم اپنے باپ کو اچھے لگنے لگو گے۔