وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ پھر اس میں اختلاف کیا گیا، (١) اگر پہلے ہی آپ کے رب کی بات صادر نہ ہوگئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ کردیا جاتا (٢) انھیں تو اس میں سخت شبہ ہے۔
یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں جس طرح آج قرآن کے بارے میں اختلاف کیا جا رہا ہے کوئی کہتا ہے، پہلوں کی کہانیاں ہیں کوئی کہتا ہے کہ یہ بیان کی جادوگری ہے۔ قرآن نبی کا تصنیف کردہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح تورات جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی گئی تھی اس میں بھی اختلاف کیا گیا تھا اور لوگوں کا یہ جرم اتنا شدید تھا جس پر انھیں فوری طور پر ہلاک کیا جا سکتاتھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت اور لوگوں کی آزمایش کے لیے ایک مدت مقرر کر رکھی ہے۔ اس لیے فوری طور پر نہ تو قوم موسیٰ علیہ السلام ہلاک کی گئی تھی اور نہ آپ کی قوم کو ہلاک کیا جائے گا۔ لہٰذا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم یہ دیکھ کر بددل اور شکستہ خاطر نہ ہو اس کتاب میں ایسے بصیرت افروز دلائل موجود ہیں اور سیدھی سیدھی، صاف باتیں قرآن میں پیش کی جا رہی ہیں۔ پھر بھی یہ لوگ ان کو قبول نہیں کرتے۔ چونکہ ہم وقت مقرر کر چکے ہیں اور چونکہ ہم حجت پوری کیے بغیر عذاب نہیں کیا کرتے یہ تاخیر اس لیے ہے ورنہ ابھی انھیں ان کے گناہوں کا مزا یاد آجاتا۔