تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انھیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم (١) اس لئے کہ آپ صبر کرتے رہیئے (یقین مانیئے) کہ انجام کار پرہیزگاروں کے لئے ہے (٢)۔
تاریخ ماضی وحی کے ذریعے بیان کی گئی: حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً چار ہزار سال پیشتر کا ہے۔ اس دور کے مستند اور صحیح ترین حالات کی اطلاع دینا اللہ ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ جو بذریعہ وحی کے ہم تجھے ان کی خبر کر رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے ان کی حقیقت اس طرح کھول کر بیان کر رہے ہیں جیسے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں موجود تھے۔ اس سے پہلے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں سے کوئی ان کا علم رکھتا تھا، اور کسی کو بھی گمان نہ ہو کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سیکھ لیے ہوں۔ پس بات صاف ہے کہ یہ اللہ کی وحی سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئے اور ٹھیک اسی طرح جس طرح اگلی کتابوں میں موجود ہیں۔ پس اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ستانے، جھٹلانے پر صبر کرنا ہوگا۔ ہم تجھے اور تیرے تابعداروں کو ان پر غلبہ دیں گے انجام کے لحاظ سے تم ہی غالب رہو گے۔ اور اخروی زندگی میں بھی بہرحال اللہ سے ڈرنے والوں کا انجام ہی بخیر ہوگا۔