وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
اور آپ اگرچہ اہل کتاب کو تمام دلیلیں دے دیں لیکن وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے (١) اور نہ آپ کے قبلے کو ماننے والے ہیں (٢) اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلے کو ماننے والے ہیں (٣) اور اگر آپ باوجود کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے پھر بھی ان کی خواہشوں کے پیچھے لگ جائیں تو بالیقین آپ بھی ظالموں میں ہوجائیں گے (٤)۔
اہل کتاب کے قبلے بھی مختلف ہیں یہود کا قبلہ تو صخرہ بیت المقدس ہے ۔ بیت المقدس کو حضرت سلیمان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تیرہ سو سال بعد تعمیر کیا تھا اور عیسائیوں کا قبلہ بیت المقدس کی شرقی جانب ہے ۔یہودی خواہش پرست تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ قبلہ بدل جائے ۔دونوں گروہ ایک قبلے پر متفق نہیں ہوتے تھے اس لیے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ مسلمان ایک قبلے پر متفق ہوں اور وہ ان کی طرف داری کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وحی الٰہی کے پابند تھے اس لیے انھیں حکم دیا گیا کہ جو علم ہم نے آپ کو دیا ہے اس پر سختی سے کاربند رہیں اور اُمت کو تنبیہ کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اللہ کا جو حکم تمہیں مل رہا ہے اس پر پورا یقین رکھو اور اسی کے مطابق عمل کرو اگر تم یہود کو خوش کرنے کی کوشش کرو گے تو تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔