حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا (١) ہم نے کہا کہ کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے (یعنی) دو (جانور، ایک نر اور ایک مادہ) سوار کرا لے (٢) اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑچکی (٣) اور سب ایمان والوں کو بھی (٤) اس کے ساتھ ایمان لانے والے بہت ہی کم تھے (٥)۔
قوم نوح علیہ السلام پر عذاب الٰہی کا نزول: طوفان نوح کا آغاز تنور سے چشمہ پھوٹنے سے ہوا ایک قول کے مطابق معروف تنور جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں اور ایک قول کے مطابق تنور سے مراد سطح زمین ہے۔ تنور کے اُبلنے سے بقول ابن عباس رضی اللہ عنہما ’’یہ مطلب ہے کہ روئے زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ (تفسیرطبری) اوپر سے لگا تار بارش شروع ہو گئی پہلا چشمہ پھوٹنے پر نوح علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ سب ایمان والوں کو اس کشتی میں سوار کر و۔ اور جو جانور بھی اس وقت روئے زمین پر موجود ہیں۔ ان کا ایک ایک جوڑا یعنی (نر ومادہ) بھی اس کشتی میں سوار کر لو۔ اپنے گھر والوں میں سے جو مومن ہیں ان سب کو بھی سوار کر لو۔ اور وہ حام، سام، یافث اور ان کے اہل و عیال تھے، اور جو ایمان نہیں لائے جن میں ان کا بیٹا یام جسے کنعان بھی کہا جاتا تھا اور حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی واعلہ جو کافر تھی یہ دونوں بھی طوفان کی نذر ہو گئے۔ ایمان لانے والے بہت تھوڑے لوگ ہی تھے جن کی تعداد اَسّی سے زیادہ نہ تھی۔