فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ
اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں (١) اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ (٢) لوگوں کے (٣) اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں۔
یہ وہ اعتراض ہے جو منکرین حق کی طرف سے تمام انبیاء پر ہوتا رہا ہے۔ جن کے خیال میں نبی یا تو مافوق البشر مخلوق ہونا چاہیے، یا اس کی ساتھ کوئی فرشتہ رہنا چاہیے یا مال و دولت شان و شوکت کے لحاظ سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ حق کی تاریخ میں یہ بات بھی ہر دور میں سامنے آتی رہی ہے کہ ابتدا میں اس کو اپنانے والے ہمیشہ وہ لوگ ہوتے جنھیں معاشرے میں کمزور اور کم تر سمجھا جاتا تھا اور صاحب حیثیت اور خوشحال طبقہ اس سے محروم رہتا۔ حتیٰ کہ یہ چیز پیغمبروں پیروکاروں کی علامت بن گئی۔ صحیح البخاری کی روایت میں ہے کہ جب شام روم ہر قل نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں پوچھیں تو ان میں ایک بات یہ بھی پوچھی کہ: ’’اس کے پیروکار معاشرے کے معزز سمجھے جانے والے لوگ ہیں یا کمزور لوگ؟ تو حضرت سفیان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ’’کمزور لوگ‘‘ جس پر ہرقل نے کہا: ’’رسولوں کے پیروکار یہی لوگ ہوتے ہیں‘‘ (بخاری نمبر۷، مسلم: ۱۷۷۳) قرآن کریم میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خوشحال طبقہ ہی سب سے پہلے پیغمبروں کی تکذیب کرتا رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَالَ مُتْرَفُوْهَا اِنَّا وَجَدْنَا اٰبَآءَنَا عَلٰى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ﴾ (الزخرف: ۲۳) ’’آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو (ایک راہ پر اور) ایک دین پر پایا ہے۔ اور ہم تو انھی کے نقش پاکی پیروی کرنے والے ہیں۔‘‘ اہل کفر اہل ایمان کی دنیوی حیثیت کے اعتبار سے اُنھیں حقیر اور کم تر سمجھتے تھے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ حق کے پیروکار ہی معزز و اشراف ہیں۔ حق کا انکار کرنے والے بے حیثیت اور حقیر ہیں چاہے دنیوی اعتبار سے وہ مالدار ہی ہوں۔