وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ
اور اگر ہم اسے کوئی مزہ چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں (١) یقیناً وہ بڑا اترانے والا شیخی خور ہے (٢)
ان دونوں آیات میں انسان کی تنگ ظرفی اور ناشکری کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ یعنی نعمتوں کے بعد اگر وہ کسی وقت مصیبت آجائے تو نا اُمید و مایوس ہو جاتا ہے اور اگر سختی کے بعد آسانی مل جائے تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا، اس وقت بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ اس وقتی بھی اللہ سے غافل اور مغرور ہو کر شیخیاں بگھارنے لگتا ہے اور پھولے نہیں سماتا، جیسے پھر اسے کوئی مصیبت آئے گی ہی نہیں حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ پچھلی حالت کو فراموش نہ کرتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا اور اس کے احسانات کے سامنے جھک جاتا۔