وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
اور یہ کہ اپنا رخ یکسو ہو کر (اس) دین کی طرف کرلینا (١) اور کبھی مشرکوں میں سے نہ ہونا۔
ہدایت کے حصول کے لیے تین ہدایات: (۱) ہر نبی کی دعوت کا آغاز شرک کی تردید سے ہوتا ہے۔ اور اس کی زندگی نبوت سے پہلے بھی شرک سے مبرا ہوتی ہے دین اسلام کا جو راستہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور دکھلایا ہے۔ بالکل ناک کی سیدھ اسی پر چلے جائیے، دائیں بائیں آگے پیچھے جتنے بھی راستے ہیں سب شیطانی راہیں ہیں۔ (۲) ہر قسم کے تعصبات جاہلانہ اور مشرکانہ رسم و رواج، مذہبی تعصاب اور سابقہ نظریات کو بالکل چھوڑ چھاڑ کر یکسو ہو کر چلنا ہوگا (۳) مشرکانہ عقائد رسم و رواج، عادات و فصائل سب سے پاک رہ کر اللہ کی راہ اختیار کرنا ہوگا ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔ مراد یعنی اگر اللہ کو چھوڑ کر آپ ایسے معبودوں کو پکاریں گے جو کسی کو نفع و نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں تو یہ ظلم کا ارتکاب ہوگا۔ ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ رکھ دینا، عبادت چونکہ صرف اس اللہ کا حق ہے جس نے تمام کائنات بنائی اور تمام اسباب حیات بھی وہی مہیا کرتا ہے تو اس مستحق عبادت کو چھوڑ کر کسی اورکی عبادت کرنا، شرک ہے اسی لیے شرک کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہاں اگرچہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن اصل مخاطب تمام انسان اور بالخصوص اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔