فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ
چنا نچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے (١) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔
کسی بستی کے تمام باشندے کسی نبی پر ایمان نہیں لائے تو سب نے ہی کفر کیا یا اکثر نے سورہ یٰسٓ میں فرمایا بندوں پر افسوس ہے ان کے پاس جو رسول آئے انھوں نے ان کا مذاق اُڑایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھ پر انبیاء پیش کیے گئے کسی نبی کے ساتھ تو لوگوں کا ایک گروہ تھا، کسی کے ساتھ صرف ایک آدمی، کسی کے ساتھ صرف دو اور کوئی محض تنہا، پھر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کثرت بیان کی۔ پھر اپنی امت کا اس سے بھی زیادہ ہونا بیان کیا کہ اس نے مشرق سے مغرب کی سمت کو ڈھانپ لیا (بخاری: ۵۷۰۵) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا، ان میں کوئی ایک بستی بھی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایسا ایمان لائی جو اس کے لیے فائدے مند ہوتا۔ ہاں صرف یونس علیہ السلام کی قوم ایسی ہوئی ہے کہ جب وہ ایمان لے آئی تو اللہ نے اس سے عذاب دور کر دیا۔ اس قصہ کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ یونس علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ان کی تبلیغ و دعوت سے ان کی قوم متاثر نہیں ہو رہی تو انھوں نے اپنی قوم میں اعلان کر دیا کہ فلاں فلاں دن تم پر عذاب آجائے گا اور خود وہاں سے نکل گئے۔ جب عذاب بادل کی طرح ان پر اُمڈ آیا تو وہ بچوں، عورتوں حتیٰ کہ جانوروں سمیت ایک میدان میں جمع ہو گئے اور اللہ کی بارگاہ میں عاجزی و انکساری اور توبہ و استغفار شروع کر دیا۔ آنسوؤں کی جھڑیاں لگا کر اللہ سے فریاد کرنے لگے، اللہ کی رحمت جوش میں آئی۔ ان کی توبہ قبول فرما کر ان سے عذاب ٹال دیا۔ عذاب ٹلنے کی وجوہ: اس قوم سے امتیازی سلوک کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ۱۔ یونس علیہ السلام امرالٰہی کے بغیر انھیں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ابھی ان پر اتمام حجت کا وقت پورا نہیں ہوا تھا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس انداز سے ان لوگوں نے اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ کی اس طرح پہلے کسی قوم نے نہ کی تھی۔ (واللّٰہ اعلم بالصواب)