فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
پھر اگر آپ اس کی طرف سے شک میں ہوں جس کو ہم نے آپ کے پاس بھیجا ہے تو آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھئے جو آپ سے پہلی کتابوں کو پڑھتے ہیں، بیشک آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے سچی کتاب آئی ہے۔ آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں (٤)۔
ٹھوس دلائل کے باوجود شک کا علاج اہل علم سے تحقیق کرنا ہے: جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ مجھے شک ہے نہ مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ (تفسیر طبری: ۱۵/ ۲۰۲، ح: ۱۷۸۹۳) یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے اُمت کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ کہ جن لوگوں پر سابقہ آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں اور وہ ان کتابوں کو پڑھتے بھی ہیں یعنی یہود ونصاریٰ۔ ان کتابوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں موجود ہیں ان لوگوں پر تعجب اور افسوس ہے۔ ان کی کتابوں میں نبی آخر الزماں کی تعریف و توصیف اور جان پہچان ہونے کے باوجود بھی ان کتابوں کے احکام کو خلط ملط کرتے اور تحریف و تبدیل کرکے بات بدل دیتے ہیں۔ اگرچہ یہود ونصاریٰ کی اکثریت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائی تھی تاہم کچھ انصاف پسند لوگ بھی موجود تھے لہٰذا یہ لوگ شہادت دے دیتے تھے کہ فی الواقع یہ آسمانی کتاب ہے۔