سورة یونس - آیت 62

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یاد رکھو کے اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

نافرمان بندوں کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبرداروں کا ذکر فرما رہا ہے۔ اور وہ اولیا اللہ ہیں اولیا اللہ کے معنی ہیں وہ سچے اور مخلص مومن جنھوں نے اللہ کی اطاعت اور معاصی سے اجتناب کرکے اللہ کا قرب حاصل کر لیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں خود بھی ان کی تعریف فرمائی جو ایمان لائے، جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا، اور ایمان اور تقویٰ ہی اللہ کے قرب کی بنیاد اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ اس لحاظ سے ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہے، لوگ ولایت کے لیے کرامت کے اظہار کو ضروی سمجھتے ہوں اور پھر وہ اپنے بنائے ہوئے ولیوں کے لیے جھوٹی سچی کرامتیں مشہور کرتے ہیں یہ خیال بالکل غلط ہے۔ اگر کسی سے کرامت ظاہر ہو جائے تو یہ اللہ کی مشیت ہے۔ ا س میں بزرگ یا ولی کی مشیت شامل نہیں۔ لیکن کسی متقی مومن اور متبع سنت سے کرامت کا ظہور ہویا نہ ہو اس کی ولایت میں شک نہیں ایمان والے اللہ سے ڈرتے ہیں۔چونکہ انھوں نے زندگی خدا خوفی کے ساتھ گزاری ہوتی ہے۔ اس لیے قیامت کی ہولناکیوں کا اتنا خوف ان پر نہیں ہوگا جس طرح دوسروں کو ہوگا بلکہ وہ اپنے ایمان و تقویٰ کی وجہ سے اللہ کی رحمت وفضل خاص کے اُمیدوار اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھنے والے ہوں گے، اسی طرح دنیا میں جو لذتیں ان کو حاصل نہ ہو سکی ہوں گی ان پر وہ حزن وملال کا مظاہر ہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی قضا و تقدیر ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں کوئی کدورت پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کے دل قضائے الٰہی پر مسرور و مطمئن رہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بھی بہت سے سلف صالحین فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ وہ ہیں جن کا چہرہ دیکھنے سے اللہ یاد آجائے۔ (ابن کثیر: ۲/ ۶۶۳)