وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ
اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے (١) پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ ٹھہرو (٢) پھر ہم ان کی آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے (٣) اور ان کے وہ شرکا کہیں گے کہ کیا تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔؟
میدان حشر میں سب موجود ہوں گے۔ میدان حشر میں مومن، کافر، جن و انس سب اللہ کے سامنے ہوں گے سب کا حشر ہوگا ایک بھی حاضر ہونے سے باقی نہ رہے گا پھر مشرکوں کو اور ان کے شریکوں کو الگ الگ کھڑا کر دیا جائے گا تاکہ ایک دوسرے کے روبرو ہو کر سوال و جواب کر سکیں، ان میں وہ سب اشیا شامل ہیں جن کی دنیا میں پوجا کی جاتی رہتی ہے۔ اس میں شجر و حجر، مویشی جیسے گائے بیل فرشتے، انبیا بھی، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام، بزرگان دین اور مشائخ اور پیران طریقت بھی، دیوی دیوتا اور ان کے مجسمے بھی غرض جس جس چیز کی کسی نہ کسی رنگ میں عبادت کی جاتی رہی ہے، سب کو وہاں اکٹھا کیا جائے گا ان کے مقابلے میں اہل ایمان کو دوسری طرف کر دیا جائے گا یعنی دونوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا جائے گا۔ ﴿وَ امْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (یٰسٓ: ۵۹) ’’اے گناہ گارو! آج تم الگ ہو جاؤ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿يَوْمَىِٕذٍ يَّصَّدَّعُوْنَ﴾ (الروم: ۴۳) ’’اس دن لوگ گروہوں میں بٹ جائیں گے۔‘‘ یعنی دو گروہوں میں (ابن کثیر) پھر ان کے درمیان دنیا میں جو خصوصی تعلق تھا وہ ختم کر دیا جائے گا اور یہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور ان کے معبود اس بات کا ہی انکار کریں گے کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے، ان کو مدد کے لیے پکارتے تھے، ان کے نام کی نذرو نیاز دیتے تھے اللہ تعالیٰ ان بے جان چیزوں کو قوت گویائی عطا کر دے گا اور وہ عبادت گزاروں کے سامنے انکار کر یں گے کیونکہ ان میں جان ہوتی ہے نہ عقل وہ کیا جانیں کہ عبادت کیا ہے اور شر ک کیا؟