إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات، جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں، خوب گنجان ہو کر نکلی یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے ہیں تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کردیا (٣) کہ گویا کل وہ موجود ہی نہ تھی۔ ہم اس طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو سوچتے ہیں۔
دنیا کی حقیقت: اس آیت میں دنیا کی بے ثباتی کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح بارش کے برسنے کے بعد زمین لہلہا اُٹھتی ہے۔ طرح طرح کی سبزیاں، چارے، پھل پھول، کھیت باغات پیدا ہو گئے۔ انسان کے کھانے کی چیزیں اور جانوروں کے چرنے چگنے کی چیزیں چاروں طرف پھیل گئیں زمین سرسبزو شاداب نظر آنے لگی۔ کہ ناگہانی آندھیوں کے جھکڑ چلنے لگے، برف باری یعنی اولے پڑے درخت جڑوں سے اُکھڑ گئے۔ ہریالی خشکی میں بدل گئی، کھیت اور باغات ایسے ہو گئے گویا تھے ہی نہیں۔ اسی طرح انسانوں پر بھی جوانی آتی ہے جب اسے دنیا کی ہر چیز حسین نظر آنے لگتی ہے۔ وہ دنیا کی رعنائیوں میں پوری طرح اپنا دل لگا لیتا ہے کہ اتنے میں اللہ کا حکم یعنی اچانک موت آلیتی ہے اور جس طرح مر جانے کو ناگہانی آفت آنے یا اس کے کٹ جانے کے بعد چند دنوں تک اس کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے اسی طرح مر جانے والا انسان بھی تھوڑی مدت بعد لوگوں کے دلوں سے محو ہو جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب اس کا نام و نشان تک دنیا سے مٹ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا﴾ (الکہف: ۴۵) ’’ان کے سامنے دنیا کی مثال بھی بیان کرو جیسے پانی جیسے ہم آسمان سے اُتارتے ہیں اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا نکلا ہے۔ پھر آخر کار وہ پورا پورا ہو جاتا ہے۔ جیسے ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘