إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کردیا پھر عرش قائم ہوا (١) وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے (٢) اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں (٣) ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو (٤) کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔
عبادت کا مستحق صرف وہ ہے جو پروردگار ہو۔ ربوبیت کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ ایام (ادوار) میں پیدا کیا، پھر اُسے یونہی چھوڑ نہیں دیا گیا بلکہ اس کا پورا انتظار چلا رہا ہے۔ شمس و قمر اور ستارے سب اسی کے حکم کے مطابق گردش کر رہے ہیں، پہاڑوں میں، آبادیوں میں، سمندروں میں، ویرانوں میں وہی بندوبست کر رہا ہے۔ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، ہر چھوٹے بڑے، ہر کھلے چھپے کو جانتا ہے۔ ہر جاندار کا روزی رساں وہی ہے۔ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے۔ زمین کے اندھیروں کے دانوں کی اس کو خبر ہے۔ ہر تروخشک چیز کھلی کتاب میں موجود ہے۔ اس کا رعب داب اور اس کا تصرف اتنا زیادہ ہے کہ کوئی اس کے سامنے کسی دوسرے کی سفارش کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا الایہ کہ وہ خود ہی کسی کو سفارش کی اجازت دے لہٰذا ان سب باتوں کا تقاضا یہی ہے کہ تم لوگ اسی بااختیاراور مقتدر ہستی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، بلکہ وہی تمھارا پروردگار ہے۔ کفار و مشرکین کا عقیدہ تھا کہ جن بتوں کی وہ عباد ت کرتے ہیں۔ قیامت کے دن وہ اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کو عذاب سے چھڑوا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کی دو ٹوک نفی فرما دی کہ سوائے اللہ کی اجازت کے اور جس کے لیے اللہ کی اجازت ہوگی کسی کی جرأت نہیں ہوگی کہ وہ کسی کی سفارش کر سکے۔ یہی اللہ تم سب مخلوق کا پالنہار ہے۔ تم اسی کی عبادت میں لگے رہو۔ اسے وحد لاشریک مانو، مشرکو! اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے۔ دوروں کو اس کے ساتھ پوجتے ہو حالانکہ وہ خود اس کے قائل تھے کہ خالق و مالک وہی اکیلا ہے۔ زمین و آسمان اور عرش عظیم کا رب اسی کومانتے تھے۔