أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ
کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب (١) ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو ڈرائیے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنائیے کہ ان کے رب کے پاس ان کو پورا اجر و مرتبہ (٢) ملے گا، کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے (٣)۔
پہلا اعتراض: ان مشرکوں کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ شخص جو ہم جیسا ہی ایک آدمی ہے۔ ہماری طر ح ہی زندگی بسر کرتا، کھاتا ہے، پیتا ہے، اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ وہ اللہ کا رسول ہو۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر دیا ہے کہ انسانوں کی راہنمائی کے لیے صرف انسان ہی رسول ہو سکتا ہے۔ جو انھی کی زبان بولتا اور سمجھتا ہو اگر وہ کسی اور جن یعنی فرشتہ یا جن ہوتا، تو دونوں ہی صورتوں میں یہ رسالت کا مقصد فوت ہو جاتا اس لیے کہ انسان اس سے مانوس ہونے کی بجائے وحشت محسوس کرتے، اور ان کے لیے ان کا دیکھنا بھی ممکن نہ ہوتا، اور اگر جن یا فرشتے کو انسانی قالب میں بھیجتے تو پھر وہی اعتراض آتا کہ یہ تو ہماری طرح کا ہی انسان ہے۔ اس لیے ان کے اس تعجب میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔ رسول بھیجنے کا مقصد کیا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے بروقت مطلع کر دے اور انھیں اللہ کے جملہ احکام پہنچادے اور بتلادے کہ عزت و سرفرازی صرف ان لوگوں کے لیے ہی ہو سکتی ہے۔جو اس کی تعلیم کو تسلیم کر لیں، لہٰذا لوگوں کو تو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر اس بات میں تعجب کیا ہے۔کافروں کو جب انکار کے لیے کوئی اور بات نہیں سوجھتی تو جادوگر کہہ کر چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں۔ آپ کو جادوگر کیوں کہا جاتا تھا۔ کیونکہ آپ جو کلام پیش کر رہے تھے اس میں لطافت، شرینی اور تاثیر اتنی زیادہ تھی کہ کافر بھی یہ کلام سن کر مسحور ہو جاتے تھے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ((اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا)) یعنی کوئی بیان ایسا ہوتا ہے جو جادو کا سا کام کر جاتا ہے۔ (بخاری: ۵۱۴۶) اسی تاثیر کی وجہ سے قریش نے قرآن کو بلند آواز سے پڑھنے پر پابندی لگا رکھی تھی کہ ہماری عورتیں بچے اور متاثر ہوتے ہیں حالانکہ یہ پابندی لگانے والے خود قرآن سن کر اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔