سورة التوبہ - آیت 118

وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا (١) یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے (٢) اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کرسکیں (٣) بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جن کا معاملہ ملتوی کردیا گیا تھا: یہ تین صحابہ تھے کعب بن مالک، مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم۔ یہ تینوں نہایت مخلص مسلمان تھے اس سے پہلے ہر غزوے میں شریک ہوتے رہے۔ جبکہ غزوہ تبوک میں صرف سستی کی وجہ سے شریک نہ ہوئے بعد میں غلطی کا احساس ہوا تو سوچا کہ ایک غلطی پیچھے رہنے کی تو ہو ہی گئی ہے لیکن اب منافقین کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کرلیا اور اسکی سزا کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے معاملہ کو اللہ کے سپرد کردیا کہ وہ ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے گا، تاہم اس دوران آپ نے صحابہ کرام ان تینوں افراد سے تعلق قائم رکھنے حتیٰ کہ بات چیت تک کرنے سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد انھیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دو ر رہیں، چنانچہ بیویوں سے جدائی بھی عمل میں آگئی، مزید دس دن گزرے تو توبہ قبول کرلی گئی، اور مذکورہ آیت نازل ہوئی (اس وقت کی پوری تفصیل حضرت کعب بن مالک سے مروی بخاری کی حدیث میں موجود ہے)۔ زمین تنگ ہوگئی: سے ان ایام کی کیفیت مراد ہے جس سے سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے انھیں گزرنا پڑا۔ اور پچاس دن کی آہ و زاری کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان تینوں صحابہ کی توبہ قبول فرمائی۔ اور اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔