سورة التوبہ - آیت 109

أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ تَقْوَىٰ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو، یا وہ شخص کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو، رکھی ہو، پھر وہ اس کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑے (١) اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو سمجھ ہی نہیں دیتا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں مومن اور منافق کے عمل کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ مومن کا عمل اللہ کے تقویٰ اور اُسکی رضا مندی کے لیے ہوتا ہے جب کہ منافق کا عمل ریاکاری اور فساد پر مبنی ہوتا ہے۔ جرف ِھار: سے مراد دریا کا ایسا کنارہ جس کے نیچے سے دریا زمین بہا کر لے گیا ہو اور وہ کنارہ کسی وقت بھی پانی کی ایک ہی ٹکر سے دریا میں گر پڑے۔ اس آیت میں اللہ کی رضا کو پختہ اور ٹھوس زمین سے اور نفاق کو کھوکھلے گڑھے یا کھائی سے تشبیہ دی گئی ہے ان منافقین کا مسجد بنانے کا عمل بھی ایسا ہی ہے جو انھیں جہنم میں ساتھ لے گرے گا۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مسجد ضرار سے دھواں نکلتے دیکھا۔ (تفسیر طبری) امام ابن جریررحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس مسجد کو توڑا اور اسکی بنیادیں اکھیڑ پھینکیں، انھوں نے اس کے نیچے سے دھواں اٹھتا ہوا پایا۔