سورة التوبہ - آیت 102

وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور کچھ لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں (١) جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے (٢) اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے (٣) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے مسلمان: اوپر کی آیات میں منافقوں کا حال بیان کیا جو اللہ کی راہ میں جہاد میں بے ایمانی اور شک کی وجہ سے شامل نہ ہوئے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا حال بیان ہورہا ہے جن کے پاس کوئی معقول عذر نہیں تھا الا یہ کہ وہ سستی اور طلب راحت کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہوئے، انھوں نے جھوٹے منافقین کی طرح قسمیں کھانے کی بجائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باز پرس سے پہلے ہی اپنے جرم کا اعتراف یوں کیا کہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا اور اپنے اوپر نیند اور کھانا پینا حرام کرلیا۔ اور قسم کھائی کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مجرمو ں اور قیدیوں کو اپنے ہاتھ سے نہ کھولیں گے اسی طرح بندھے رہیں گے خواہ انھیں اسی حال میں موت کیوں نہ آجائے ۔ ان میں سرفہرست ابو لبابہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذر تھے جو بیعت عقبہ کے موقع پر اسلام لائے تھے پھر غزوہ بدر اور دوسرے معرکوں میں بھی شریک رہے البتہ غزوہ تبوک میں نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا اور پیچھے رہ گئے ۔ ان کے دوسرے چھ ساتھیوں کا طرز زندگی بھی بے داغ تھا۔ ان کا یہ حال دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’واللہ! جب تک اللہ حکم نہ دے میں انھیں نہیں کھول سکتا۔‘‘ چنانچہ یہ لوگ کئی روز تک بے آب و دانہ ستون سے بندھے رہے حتیٰ کہ بیہوش ہوکر گر پڑے ۔ تب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ سے کھولا اور توبہ کی بشارت سنائی۔ (ابن کثیر: ۲/ ۶۰۸)