سورة التوبہ - آیت 91

لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں، ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راہ نہیں، اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے (١)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شرعی معذور: اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر بھی واضح تھا، مثلاً (۱) ضعیف، ناتواں، بوڑھے قسم کے لوگ، نابینا، لنگڑے معذورین بھی اس ذیل میں آتے ہیں۔ (۲) بیمار لوگ۔ (۳) جن کے پاس جہاد کے اخراجات نہیں تھے اور بیت المال بھی ان کے اخراجات کا متحمل نہیں تھا۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر خواہ: مراد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جہاد کی تڑپ تھی اور وہ مجاہدین سے محبت رکھتے تھے۔ اور اللہ اور رسول کے دشمنوں سے عداوت رکھتے تھے، اور حتی الامکان اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کرتے تھے۔ ایسے محسنین اگر جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔ سیدنا جابر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہویا کوئی وادی عبور کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔‘‘صحابہ کرام نے پوچھا! اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہیں ۔ انھیں عذر نے روکا ہے۔‘‘ (بخاری: ۴۴۲۳)