سورة التوبہ - آیت 50

إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ وَيَتَوَلَّوا وَّهُمْ فَرِحُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ کو اگر کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں برا لگتا ہے اور کوئی برائی پہنچ جائے تو کہتے ہیں ہم نے اپنا معاملہ پہلے سے درست کرلیا تھا، مگر وہ تو بڑے ہی اتراتے ہوئے لوٹتے ہیں (١)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مومن اور منافق کی خصلت کا فرق: ان آیات میں مومنوں اور منافقوں کے نظریاتی اختلاف کو بیان کیا گیا ہے کہ منافق کے ہر کام میں دنیوی مفاد ملحوظ ہوتا ہے اگر اُسے کامیابی حاصل ہو تو اترانے لگتا ہے خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور اگر ناکامی ہو تو خوشی ہوتے اور کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم تو ان سے بچے رہے۔ جبکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے دین کی سربلندی اور اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ فرماتے ہیں کہ انھیں جواب دے دو کہ رنج و راحت اور ہم خود اللہ کی تقدیر اور اسکی منشا کے تحت ہیں وہ ہمارا مولا، ہمارا آقا ہے ہم مومن ہیں اور مومنوں کا بھروسہ اللہ ہی پر ہوتا ہے وہ ہمارا کارساز ہے اور وہ ہمیں کافی ہے۔