سورة التوبہ - آیت 44

لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں کریں گے (١) اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ اور آخرت پر ایمان: مراد اللہ کے سچے وعدے ہیں جو فتح و نصرت سے متعلق مسلمان سے كیے ہیں یعنی جنت میں داخل کرنے، درجات بلند کرنے کے وعدے ہیں اور جن لوگوں کا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے وہ تو فوراً اپنے اموال اور جانوں سے جہاد پر روانہ ہوجائیں گے اور ایسے لوگ رخصت نہیں مانگتے البتہ جن منافقوں کو یہ یقین ہی نہیں کہ اللہ کے وعدہ کے مطابق مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی اور نہ ہی آخرت کے وعدوں پر یقین ہے بس وہ اپنے دنیوی مفادات میں مشغول ہیں۔ کبھی سوچتے ہیں کہ جہاد میں جانا سود مند ہے اور کبھی یہ خیال آتا ہے کہ کہیں الٹا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ بالآخر انھیں یہی تدبیر کامیاب نظر آتی ہے کہ حیلوں بہانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت کرلیں تاکہ انکے جھوٹ اور بدنیتی پر پردہ پڑا رہے۔