يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے۔
غزوۂ تبوک: اس آیت سے ایک نئے مضمون کا یعنی غزوہ تبوک کا آغاز ہورہا ہے۔ جس کا پس منظر یہ تھا کہ مکہ اور حنین کی فتح کے بعد عرب بھر میں اسلام کا بول بالا ہوگیا تو شام کی سرحد پر بسنے والے عرب قبائل نے مسلمان کی ان کامیابیوں کو اپنے لیے عظیم خطرہ سمجھا اور مسلمانوں کی کمر توڑنے کے لیے عیسائی، مشرک قبائل، مدینہ کے منافق اور یہود نے قیصر روم سے سازباز کرکے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں اور کافروں نے اسی سازباز کی غرض سے مسجد ضرار بھی تعمیر کی تھی۔گویا کہ کفر کی اندرونی، بیرونی طاقتیں اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہو گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام کی سرحد پر رومی فوجوں کے عظیم اجتماع کی خبریں دم بدم پہنچ رہی تھیں۔ مسلمانوں کے حالات کی ناساز گاری: اب ایک طرف رومی اور اتحادیوں کی عظیم تیاریاں ہو رہی تھیں تو دوسری طرف مدینہ میں قحط سالی کا دور دورہ تھا اور شدید گرمی کا موسم بھی تھا، فصلیں پکنے کے قریب تھیں۔ فاصلہ دور کا اور پُر مشقت تھا۔ سامان اور سواریوں کی کمی تھی اور مقابلہ عظیم طاقت سے جس نے حال ہی میں کسریٰ شاہ ایران کو شکست دے کر اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ گویا ہر لحاظ سے حق و باطل کی فیصلہ کن جنگ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا نام لیکر شاہ روم سے ٹکر لینے کا فیصلہ کرلیا اور مسلمانوں میں عام جہاد کا اعلان کردیا۔ ان حالات میں منافقوں کا جنگ سے جی چرانا تو فطری امر تھا۔ بعض کمزور دل اور ضعیف اعتقاد والے مسلمان بھی مشکل میں پڑ گئے اور آیت میں انھیں جہاد کی پرزور ترغیب دی جارہی ہے۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا ہیچ ہے: یعنی جہاد میں شامل نہ ہوکر تم زیادہ سے زیادہ اپنی جانیں یا کچھ مال بچا لو گے، فصلیں کاٹ لو گے یا سفر کی مشکلات سے بچ جاؤ گے اور یہ سب مفادات جنت کی دائمی نعمتوں کے مقابلہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتے۔