إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں (١) یہی درست دین ہے (٢) تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو (٣) اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں (٤) اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔
حرمت کے مہینوں میں تقدیم و تاخیر: جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یعنی ابتدائے آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں۔ جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں جن میں جدال و قتال کی بالخصوص ممانعت ہے۔ اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔ کہ ’’زمانہ گھوم کر پھر اسی حالت پر آگیا جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی سال بارہ مہینوں کا ہے جس میں چار مہینے حرمت والے ہیں تین پے درپے، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔ (بخاری: ۴۴۰۶) مشرک ان مہینوں میں ردو بدل کرکے سال میں چار حرمت والے مہینوں کی تعداد پوری کرلیتے تھے۔ مثلاً جب کوئی زور آور قبیلہ اپنے کسی کمزور دشمن قبیلے سے انتقام لینا چاہتا تو وہ اعلان کردیتا کہ اس سال محرم کے بجائے صفر حرمت والا مہینہ ہے۔ اور اس طرح وہ اپنی من مانی اغراض پوری کرلیتا پھر اعلان کر دیتا کہ اگلے سال محرم ہی حرمت والا مہینہ ہے یہ ردو بدل عموماً محرم اور صفر میں ہی ہوا کرتا تھا اس طرح یہ لوگ حلت و حرمت کے مختار بن بیٹھے تھے۔ جہاد قیامت تک جاری رہے گا: اس آیت میں مسلمانوں کو دو قسم کی ہدایات دی گئی ہیں ۔ (۱)حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتدا تمہاری طرف سے ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ ہاں اگر مشرک ہی لڑائی چھیڑ دیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ (۲)جس طرح مشرک قبائل اپنی رنجشیں بھول کر تمہارے مقابلے میں متحد ہوجاتے ہیں تمہیں بھی اکٹھے ہوکر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔