سورة التوبہ - آیت 30

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہود کہتے ہیں عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ مومنوں کو مشرکوں، کافروں، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہادکرنے کی رغبت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بناتے ہیں۔ اللہ اس سے پاک، بلند و برتر ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ دراصل سلیمان علیہ السلام کے بعد جو دور ابتدائی بنی اسرائیل پر آیا اس سے نہ صرف یہ کہ بائبل دنیا سے گم ہوگئی بلکہ بخت نصر کی اسیری نے اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان تک سے نا آشنا کردیا تھا۔ عزیر علیہ السلام بھی بخت نصر کی قید میں تھے کچھ عرصہ بعد جب ان کو رہائی ملی تو وطن واپسی پر یہ ایک اُجڑی ہوئی بستی سے گزرے جیسے بخت نصر نے ہی برباد کیا تھا، اس واقعہ کا ذکر سورۃ بقرہ ۹۵۲میں تفصیل سے گزر چکا ہے اس کے بعد چالیس سال کی عمر میں آپکو نبوت عطا ہوئی اور آپ تورات کے سب سے بڑے عالم بن گئے، آپکو تورات زبانی پوری کی پوری یاد تھی جس کو آپ نے ازسر نو تحریر کیا۔ اس طرح یہود کو انکی الہامی کتاب دوبارہ ہاتھ آئی اسی وجہ سے یہود آپ کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ اور بعض نے اس تعظیم میں اس درجہ غُلو کیا کہ انھیں اللہ کا بیٹا کہنے لگے۔ اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش، آپ کو اللہ کے عطا کردہ معجزات اور آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا جس کا ذکر قرآن میں جا بجا مذکور ہے ان اہل کتاب نے بھی دراصل سابقہ اقوام کے فلسفہ اوہام سے متاثر ہوکر ایسے گمراہ کن عقائد اختیار کرلیے، بعض انصاریٰ حضرت عیسیٰ کو خدا یا تین خداؤں سے میں سے ایک کا عقیدہ رکھتے تھے اور کچھ انھیں خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے سابقہ اقوام سے مراد یونانی، ہندی اور مصری تہذیبیں ہیں۔