لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ
یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔
نصرت الٰہی: حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے ۔ یہاں دو مشہور قبیلے ہوازن اور ثقیف رہتے تھے یہ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔ جس کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ بارہ ہزار کالشکر لیکر ان قبیلوں سے جنگ کے لیے حنین تشریف لے گئے یہ فتح مکہ کے اٹھارہ یا انیس دن بعد ماہ شوال کا واقعہ ہے۔ مسلمانوں کی پسپائی: مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار اور دشمن کی تعداد صرف چار ہزار تھی مقابلہ ہوا تو ہوازن کے تیر اندازوں نے کمین گاہوں سے اس طرح تیروں کی بوچھاڑ کی اور اس قدر بے جگری سے لڑے کہ اسلامی لشکر جو آج اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہونے کی وجہ سے کچھ بے خوف اور لاپرواہ ہو رہا تھا ان کے چھکے چھوٹ گئے اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور راہ فرار اختیار کی میدان میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سو کے قریب مسلمان رہ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو پکار رہے تھے ’’اللہ کے بندو میرے پاس آؤ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لوگوں کو ندا دی گئی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ ((اِنَّا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدُالْمُطَّلِبْ)) اور فرما رہے تھے اے اللہ اپنی نصرت فرما۔ اللہ کی قسم! جب جنگ شدت اختیار کرتی تو ہم آپ کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوجاتے اور ہم میں سے بہادر وہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کھڑا ہوتا۔‘‘ (مسلم: ۱۷۷۶) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کو جمع کرنے کے لیے آواز دیں۔ چنانچہ انکی ندا سن کے مسلمان سخت پشیمان ہوئے اور دوبارہ میدان میں آگئے اور پھر اس طرح جم کر لڑے اور اللہ نے فتح عطا فرمائی۔