قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا (١)۔
دنیاوی مرغوبات میں پھنس کر جہاد چھوڑنے کی سزا: اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے اور بعض مسلمانوں کے باپ بیٹے بیویاں کافر تھیں۔ جنھیں چھوڑ کر ہجرت کرنا مشکل سی بات تھی، اسی طرح انسان کو اپنے کمائے ہوئے مال و دولت اپنے کاروبار اور جائیداد سے بھی بہت محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ اس نے اپنے گاڑھے خون پسینے سے کمائی ہوئی ہیں، لہٰذا انہی چیزوں سے مومنوں کا امتحان لیا گیا ہے، چنانچہ صحابہ کرام کی اکثریت بجز تھوڑے سے مسلمان کے اس معیار پر پورے اُترے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ اگر تم نے ان کمزوریوں کو دور نہ کیا، اپنی جان اور اموال سے جہادکرنے میں کوتاہی کی، اور رشتہ داروں کی محبت،تن آسانی اور دنیا طلبی کی راہ اختیار کی اور خواہشات نفس میں پھنس کر اللہ کے احکام کی تعمیل نہ کی تو تمہیں حقیقی کامیابی نصیب نہ ہوگی۔ ایک روایت میں ہے کہ ’’جب تم جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کردے گاا جس سے تم کبھی نکل نہ سکو گے۔‘‘ (ابو داؤد: ۳۴۶۲، مسند احمد: ۲/ ۸۴) جہاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم (بیع عینۃ) (یعنی کسی کو معینہ مدت تک چیز ادھار دے کر پھر اس سے کم قیمت پر خرید لینا) اختیار کرلوگے اور گایوں کی دُمیں پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی و قانع ہوجاؤ گے اورجہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کردے گا جس سے تم اس وقت تک نہیں نکل سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف نہیں لوٹو گے۔ (ابو داؤد: ۳۴۶۲)