يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ پورا گنہگار ظالم ہے (١)۔
ایمان کی تکمیل کب ہوگی: یعنی ایمان کا تقاضا ہے کہ اگر باپ یا بھائی کافر ہوں تو ان سے قرابت تو کیا رفاقت بھی نہ رکھی جائے، اگر مومن یا مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اُترتا تو سمجھ لے اسکا ایمان مکمل نہیں، یہ مضمون کتاب و سنت میں متعدد جگہ مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے اگر تم ان سے تعلق رکھو گے تو یاد رکھو تم ظالم قرار پاؤ گے۔ چنانچہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے اپنی ذات کے سوا سب سے محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابھی تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوا۔‘‘پھر کسی وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’اللہ کی قسم! آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔‘‘( بخاری: ۶۶۳۲) سورۂ مجادلہ ۲۲ میں بھی یہی فرمایا ہے بیہقی میں روایت ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں، آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا، باپ بیٹے میں جنگ شروع ہوگئی، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو قتل کردیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر طبری: ۱۴/ ۱۷۶)