أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کردیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں (١) اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا (٢)۔
سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے: مشرکین حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کا جو کام کرتے تھے اس پر انھیں بڑا فخر تھا۔ اور اس کے مقابلے میں وہ ایمان اور جہاد کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کو ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھتے ہو؟ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ ہی نہیں بلکہ مشرک کا کوئی عمل بھی مقبول نہیں۔ اس آیت کا شان نزول: ایک روز منبر نبوی کے قریب کچھ مسلمان جمع تھے، ان میں سے ایک نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد میرے نزدیک سب سے بڑا عمل حاجیوں کو پانی پلانا ہے۔ دوسرے نے کہا مسجد حرام کو آباد کرنا ہے۔ تیسرے نے کہا نہیں بلکہ جہافی سبیل اللہ ان تمام عملوں سے بہتر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب انھیں اس طر ح باہم تکرار کرتے ہوئے سنا تو انھیں ڈانٹا اور فرمایا کہ منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آوازیں اونچی مت کرو، یہ جمعہ کا دن تھا۔ راوی حدیث نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اپنی آپس کی اس گفتگو کی بابت استفسار کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(مسلم: ۱۸۷۹) جس سے گویا یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ اہمیت و فضیلت والے عمل ہیں، ایمان باللہ کے بغیر کوئی عمل بھی مقبول نہیں۔ اس لیے اسے پہلے بیان کیا گیا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر ایمان اور آخرت پر ایمان لانے والے مسلمان اللہ کے نزدیک ان مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو ایمان بھی لائے اور انھوں نے جہاد بھی کیا۔ جہاد کی فضیلت: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’مجھے ایسا عمل بتلائیے جو جہاد کے ہم پلہ ہو‘‘؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسا کوئی عمل نہیں پاتا۔ (بخاری: ۲۶)