يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا (١) تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا (٢) اور پھر گناہ معاف فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
دلوں میں کیا بھلائی دیکھی: مطلب اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے جس کے دل میں نیکی ہوگی اس سے جو لیا گیا ہے (فدیہ) اس سے بہت زیادہ دے دیا جائے گا، اور پھر پہلے کیا ہوا شرک بھی معا ف کردیا جائے گا۔ حضرت عباس کا اسلام لانا اور اللہ کی مہربانی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں کا فدیہ جمع کراؤ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مال نہیں اور جنگ میں مجھ سے چوبیس اوقیہ چھین لیا گیا تھا وہی ہمارا فدیہ سمجھ لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا کی طبیعت سے واقف تھے اس لیے صحابہ سے کہہ دیا کہ فدیہ کے مال سے ایک پیسہ بھی نہ چھوڑنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’تمہارا وہ مال کہاں ہے جو تم نے اور اُم الفضل نے مل کر گاڑھا ہے یہ ایسی بات تھی جس کا ان کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو کہنے لگے میں گواہی دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اسلام لے آئے، پھر فدیہ ادا کردیا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ مجھ سے بیس اوقیہ فدیہ لیا گیا لیکن اس کے عوض مجھے دنیا میں بہت زیادہ مال دیا۔ اس وقت میرے پاس بیس غلام ہیں جن کی کمائی سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے نیز اللہ تعالیٰ نے زمزم کی تولیت بھی مجھے عطا کی، علاوہ ازیں میں اللہ سے مغفرت کی اُمید بھی رکھتا ہوں۔ (بخاری: ۴۲۱، السنن الکبریٰ للبیہقی: ۶/ ۳۵۶)