وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی (١) کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔
کفار کے مقابلہ میں ہر وقت تیار رہو: اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اپنی طاقت و امکان کے مطابق کفار کے مقابلے کے لیے ہر وقت تیار رہو، اور جہاں تک ممکن ہو اسلحہ جنگ مہیا رکھو۔ اس سے تمہارے کھلے اور چھپے دشمن تم سے مرعوب رہیں گے اور اس غرض پر جتنا بھی تمہارا خرچ ہوگا سب فی سبیل اللہ شمار ہوگا اور تمہیں اس کا پورا پورا اجر ملے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلحہ جنگ میں تیر، نیزے، تلوار اور جنگی گھوڑے ہوتے تھے، اور دفاعی سامان میں ڈھال، زرہ اور خود وغیرہ تھے۔ جنگی تربیت کے لحاظ سے پہلا نمبر تیراندازی کا تھا۔ عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برسر منبر یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ قوت سے مراد تیر چلانا ہے آپ نے اسے تین بار دہرایا اور فرمایا سن لو! اللہ تعالیٰ تمہیں زمین میں فتح دے گااور محنت سے کفایت کرے گا لہٰذا کوئی بھی تم میں سے اپنے تیروں سے کھیلنے میں سستی نہ کرے۔ (مسند احمد: ۴/ ۱۵۷، ح: ۱۷۴۴۲، مسلم: ۱۹۱۷) مگر آج تیر و تلوار کا زمانہ نہیں بلکہ میزائل، ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لیے آبدوزوں کا زمانہ ہے۔ لہٰذا آج مسلمانوں کو ان جدید آلات سے پوری طرح آگاہ اور ان کے استعمال کی تربیت ہونی چاہیے اور ان سے مسلح اور آراستہ بھی ہونا چاہیے۔