إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ
جب کہ تم پاس والے کنارے پر تھے اور وہ دور والے کنارے پر تھے (١) اور قافلہ تم سے نیچے تھا (٢) اگر تم آپس میں وعدے کرتے تو یقیناً تم وقت معین پر پہنچنے میں مختلف ہوجاتے (٣) لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہوچکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو اور جو زندہ رہے، وہ بھی دلیل پر (حق پہچان کر) زندہ رہے (٤) بیشک اللہ بہت سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
نزدیک کا کنارا: اس سے مراد وہ سمت ہے جو مدینہ کی طرف تھی۔ اور پرلے کنارے: سے مراد اُسکی مخالفت سمت جو مکہ کی طرف تھی۔ جنگ بدر اضطراراً واقع ہوئی تھی، یعنی مسلمان جب مدینہ سے نکلے تو جہاد کی غرض سے نہیں بلکہ تجارتی قافلہ جو ابوسفیان کی قیامت میں شام سے مکہ جارہا تھا اسے حاصل کرنے کے لیے نکلے تھے۔ ادھر کافر بھی جنگ کے لیے نہیں بلکہ اپنے قافلہ کو بچانے کے لیے نکلے تھے۔ اب مشیت الٰہی سے قافلہ تو بچ کر نکل گیا اور دونوں لشکروں کی آپس میں مڈبھیڑ ہوگئی۔ مقررہ وقت سے پہلو تہی سے مراد: یعنی اگر جنگ کا باقاعدہ دن اور تاریخ کا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ یا اعلان ہوتا تو ممکن بلکہ یقین تھا کہ کوئی ایک فریق لڑائی کے بغیر ہی پسپائی اختیار کرلیتا، لیکن چونکہ اس جنگ کا ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا، اس لیے ایسے اسباب پیدا کردیے گئے کہ دونوں فریق بدر کے مقام پر بغیر پیشگی وعدہ، وعید کے ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوگئے۔ جنگ بدر حق و باطل کا فیصلہ کن معرکہ تھا: یعنی اللہ کی اس تقدیری مشیت جس کے تحت بدر میں دونوں گروہوں کی مڈبھیڑ ہوئی تاکہ جو مرنے والے کافر بھی اور زندہ رہنے والے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، کہ حق پر کون تھا اور کس فریق کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی، یعنی کافروں کا یہ انجام دیکھ کر پھر بھی جو کفر پر ہی قائم رہنا چاہتا ہے وہ اپنی ہی گور گردن پر رہے اور جو اسلام لانا چاہتا ہے۔ تو وہ اللہ کی واضح تائید دیکھ کر اسلام لائے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک و کفر کے باطل ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت سب کو دکھلا دیا۔