سورة الاعراف - آیت 204

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (١

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جیساکہ او پر والی آیت میں بیان ہے کہ قرآن بصیرت و بصارت ہے، ہدایت و رحمت ہے، اس لیئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے۔ اسکی عظمت و احترام کے طور پر اسکی تلاوت کے وقت کان لگا کر سنو ایسا نہ کرؤ جیسا کفار قریش نے کیا۔ ارشاد ہے: ﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ﴾ (حم السجدۃ: ۲۶) اس قرآن کو نہ سنو اور اسکے پڑھے جانے کے وقت شور وغل کرو۔ قرآن کا سننا باعث رحمت ہے ۔مشرکین مکہ نے مسلمانوں پرپابندی عائد کر رکھی تھی (1) بیت اللہ میں داخل ہو کر نماز ادا نہیں کر سکتے نہ طواف کر سکتے ہیں ۔ مسلمان نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں، اسطرح ان کے بچے اور عورتیں متا ثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے: (2) انھوں نے آپس میں سمجھو تہ کر رکھا تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص قرآن نہ سُنے اگر چہ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور شریں انداز کلام سے خود بھی متاثر ہو کر کبھی کبھی قرآن سن لیا کرتے تھے۔ (3) دعوت قرآن کو روکنے کی تیسر ی تد بیر یہ تھی کہ جہاں قرآن پڑھا جا ئے وہاں شور وغُل کیا جائے تاکہ قرآن کی آواز کسی کے کانوں میں نہ پڑے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس روش کو چھوڑو اور ذراغور سے سنو تو سہی کہ اس میں کیا تعلیم دی گئی ہے ۔ممکن ہے تم خود بھی اس رحمت کے حصے دار بن جاؤ، جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہو چکی ہے قرآن کریم کو خاموشی سے سننا۔ یہ حکم مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے عام ہے ۔کیونکہ جہاں قرآن پڑھا اور سُنا جاتا ہے وہاں اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کبھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں سے کچھ پڑھتے تو ایک نوجوان کی عادت تھی کہ وہ بھی اسے پڑھتا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں با آواز بلند قراءت پڑھی فارغ ہو کر پلٹے اور پو چھا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا، ایک شخص نے کہا، ہاں یا رسول آپ نے فرمایا ’’میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن میں چھینا جھپٹی ہورہی ہے۔اسکے بعد لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت پڑھنے سے رُک گئے۔‘‘ (مسند احمد: ۲/ ۳۰۱، ابو داؤد: ۸۲۶، ترمذی: ۳۱۲، نسائی: ۹۲۰، ابن ماجہ: ۸۴۸) اس حدیث سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ امام جب او نچی آواز میں قرآن پڑھے اسوقت مقتدی سوائے الحمد للہ کے کچھ نہ پڑھے ۔یعنی صرف سورہ فاتحہ پڑھو کیو نکہ جو اسے نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی ۔