هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
اور اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا (١) اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا (٢) تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے (٣) پھر جب بیوی سے قربت حاصل کی (٤) اس کو حمل رہ گیا ہلکا سا۔ سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی (٥) پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے اگر تم نے ہم کو صحیح سلامت اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے (٦)۔
اس آیت میں مرد اور عورت کا رشتہ بتایا گیا ہے کہ ایک جوڑا بنا یا تمہاری جنس سے مرد کے وجود کا ٹکڑا، تاکہ مرد اُس سے سکون حاصل کرے اور وہ غلام بن کر نہیں بلکہ شریک حیات بن کر رہتے، انسانیت کو جہالت سے نکا لا ہے، عورت مرد کے لیے انعام ہے، ظاہر ی حالت میں جلوہ ہے ۔خلوت میں محبت ملتی ہے، بڑھا پے، تنہائی میں ساتھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْا اِلَيْهَا وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً﴾ (الروم: ۲۱) ’’لوگو یہ بھی اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری بیویاں بنادیں تاکہ تم ان سے سکون و آرام حاصل کرو، اور اس نے تم میں باہم محبت وا لفت پیدا کردی۔‘‘ پس یہ اللہ کی طرف سے چاہت ہے جو وہ میاں بیوی میں پید اکر دیتاہے، عورت مرد کے ملاپ سے بحکم الٰہی عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے شروع میں ہلکا رہتاہے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بچہ پیٹ میں بڑا ہونا شروع ہوجا تا ہے، تو کیفیت بو جھل ہونے لگتی ہے، اب ماں باپ دونوں اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صحیح سا لم بچہ عطا فرمائے تو ہم شکر گزاری کریں گے، اب جبکہ اللہ نے صحیح سالم بچہ عطا کر کے مہربانی فرمائی تو اس میں دوسروں کو بھی شریک یعنی شکریے کا حصہ دار ٹھہر ا لیتے ہیں، دورنبوی میں مشرکین بچوں کے ایسے ہی نام رکھ دیتے جن میں شرک پایاجاتا ، مثلا عبدالشمس، عبدالعزی، عبد مناف وغیرہ اور نذر نیاز بھی اُنکے دیوی دیوتاؤں کے آستانوں پر چڑ ھاتے، آج کے دور کے مسلمان کیسے ہیں یہ اولاد بھی غیروں سے مانگتے ہیں منتیں بھی غیروں کے نا م کی مانتے ہیں اور بچہ پیدا ہونے کے بعد نیاز بھی انہی کے آستانوں پر جا کر چڑھاتے ہیں،اور نام بھی مشر کا نہ رکھتے ہیں، پیراں دتہ، پیر بخش وغیرہ۔