قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں پر اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ (١)۔
رحمت للعالمین، خاتم النّبیین: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ اے کائنات کے انسانو! میں سب کی طرف اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا گیاہوں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلِ اللّٰهُ شَهِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ وَ اُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنۢ بَلَغَ﴾ (الانعام: ۱۹) ’’آپ اعلان کردیجیے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہ ہے، اس پاک قرآن کی وحی میری جانب اس لیے اُتاری گئی ہے کہ میں اس سے تمہیں اور جن لوگوں تک یہ پہنچے سب کو ہوشیار کردوں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ﴾ (ہود: ۱۷) ’’مخلوق کے مختلف گروہ میں سے جو بھی آپ کا انکار کرئے، اس کی وعدہ کی جگہ جہنم ہے‘‘ یو ں رسول صلی اللہ علیہ وسلم پوری نوع انسانی کے نجات دہندہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اب نجات اور ہدایت نہ عیسائیت میں ہے نہ یہودیت میں، نہ کسی اور مذہب میں، نجات اور ہدایت اگرہے تو صرف اسلام کے اپنا نے اور اسے اختیار کرنے میں ہے اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں بھی آپ کو نبی اُمی کہاگیا ہے، یہ آپ کی ایک خاص صفت ہے ۔ اُمی کے معنی ہیں اَن پڑھ، یعنی آپ نے کسی اُستاد سے تعلیم نہیں لی، لیکن اسکے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن کریم پیش کیا اس کے اعجاز و بلاغت کے سامنے دنیا بھر کے فصحا اور بلغاء عاجز آگئے، اور آپ نے جو تعلیمات پیش کیں، ان کی صداقت و حقانیت کی ایک دنیا معترف ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ ورنہ ایک اُمی نہ ایسا قرآن پیش کرسکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات بیان کر سکتا ہے، جو عدل و انصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے لیے نا گزیر ہیں، انھیں اپنا ئے بغیر دنیا حقیقی امن و سکون اور راحت و عافیت سے ہمکنا ر نہیں ہو سکتی۔ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ، سے روایت ہے کہ: ’’مجھے پانچ چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کے انبیاء کو نہیں دی گئیں۔ (۱) مجھے اپنے دشمنوں پر مہینہ بھر کی مسافت پر رعب سے مدد کی گئی ۔ (۲) میرے لیے مال غنیمت حلال كیے گئے جو پہلے کسی کے لیے نہیں تھا۔ (۳) میرے لیے تما م زمین مسجد بنادی گئی کہ میری اُمت کو جہاں وقت نماز آجائے ادا کرلے۔ (۴) تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے پہلے ہر نبی صرف اپنی اپنی قوم کی طرف ہی بھیجے گئے۔ (۵) شفاعت کا حق ۔مجھ سے فرمایا گیا، آپ دُعا کیجیے، مانگیے کیا مانگتے ہیں، ہر نبی مانگ چکا میں نے اپنے سوال کو قیامت پر تم سب کے لیے اٹھا رکھا ہے اور ہر اُس شخص کے لیے جو لا الہٰ اِلا اللہ کی گواہی دے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اُس اللہ نے بھیجا ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے، سب چیزوں کا خالق ہے، جو مارنے، جلانے پر قادر ہے، پس اے لوگو تم نبی امی پرا یمان لاؤ جو اَن پڑھ ہونے کے باوجود ساری دنیا کو پڑھا رہے ہیں، انہی کاتم سے وعدہ تھا،انہی کی بشارت تمہاری کتابوں میں ہے، یہ خود اللہ کی ذات اور اُسکی آیات پر ایمان رکھتے ہیں قول و فعل سب میں اللہ کے مطیع ہیں تم سب انہی کی فرمانبرداری کرو انہی کے طریقے پر چلو،تم راہ راست پر آجاؤ گے۔ (مسلم: ۵۲۳، مسند احمد: ۲/ ۲۲۲)