وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے (١) اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا (٢) اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کردیا (٣)۔
کمزور کون تھے: یہاں کمزور لوگوں سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جن کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا اور ان پر ظلم و ستم ڈھاتا رہتا تھا، اسی بناپر انھیں مصر میں کمزور سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ مغلوب اور غلام تھے، لیکن جب اللہ نے چاہا تو اسی مغلوب اور غلام قوم کو زمین کا وارث بنا دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ﴾ (آل عمران: ۲۶) ’’وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ۔‘‘ مشرق و مغرب میں برکت سے مراد، برکت والی سر زمین سے مراد ملک شام ہے شام میں بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی وفات کے بعد اس وقت گئے جب حضرت یوشع بن نون نے عمالقہ قوم کو شکست دے کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ ہموار کیا تھا، دریا ئے قلزم کوپار کرنے کے بعد بنی اسرائیل چالیس برس تک تو صحرائے تیہ (سینا) میں مارے مارے پھرتے رہے تھے، جس کی تفصیل سورہ بقرہ میں درج ہے، شام کے علاقہ میں اللہ تعالیٰ نے ظاہر ی اور باطنی دونوں قسم کی برکتیں عطا کی۔ ظاہر ی تو یہ ہیں کہ یہ علاقہ نہایت سر سبز و شاداب خوش منظراور زرخیز ہے، اور با طنی برکات یہ ہیں کہ یہ ملک بہت سے انبیاء کا مسکن و مدفن ہے، مشارق و مغارب سے مراد ہر جہت برکتیں ہی برکتیں ہیں۔ بنی اسرائیل کے ساتھ عہد کا پورا کرنا: اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف ۱۲۸۔ ۱۲۹ اور سورہ قصص ۶۵ میں فرمایا كہ ہم چاہتے ہیں کہ ان پر احسان کریں جو زمین میں کمزور سمجھے جاتے ہیں اور ان کو پیشوا بنائیں اور ملک کا وارث کریں اور ملک میں ان کو قوت و طاقت دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے ہیں ‘‘اور یہ فضل اور احسان اسوجہ سے ہوا، جس کا مظاہرہ انھوں نے فرعونی مظالم کے مقابلے میں کیا، اور فرعونیوں کے ہرے بھرے با غات، چشمے، کھیتیاں، عمدہ مقامات اور دیگر ساز و سامان میں بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنا دیا، یہ ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے ہے سر زمین شام برکت والی ہے، اور یہ بنی اسرائیل کے صبر کا نتیجہ ہے ۔