سورة الاعراف - آیت 105

حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

میرے لئے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس (١) تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل لایا ہوں (٢) سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے پاس پہنچ کر دوباتیں ارشاد فرمائیں (1) میں رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں اور میری سچائی کے طور پر مجھے دو معجزے بھی عطاء کئے گئے ہیں، لہٰذا تم اپنی خدائی سے دستبر دار ہوکر اللہ پر اور مجھ پر ایمان لے آؤ (2)بنی اسرائیل کو رہا کرکے میرے ساتھ روانہ کردو ۔ بنی اسرائیل کو ن تھے: بنی اسرائیل کا اصل مسکن شام کا علاقہ تھا، یہ لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں مصر چلے گئے تھے اور پھر وہیں آباد ہو گئے تھے فرعون نے ان کو غلام بنالیا تھا۔ اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا تا تھا۔ حضرت موسیٰ نے فرعون سے انکی رہائی کا مطالبہ کر دیا، تاکہ وہ اپنے آبائی مسکن جا کر عزت واحترام کی زندگی بسر کریں اور اللہ کی عبادت کریں ۔