أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکور میں ہیں) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگادیں، پس وہ نہ سن سکیں (١)۔
یعنی ایک تباہ و برباد ہونے والی قوم کی جگہ دوسری قوم لے لیتی ہے تواسکی راہنمائی کے لیے اپنی پیش رو قوم کے زوال کے کافی اسباب موجود ہوتے ہیں ۔ اور اگر وہ عقل سے کا م لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدت پہلے جولوگ یہاں دادعیش دے رہے تھے اور جنکی عظمت کا جھنڈا لہرارہا تھا لیکن آج وہ ہلاک ہوئے پڑے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس طرح گزشتہ قوموں کوان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کیا، ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہارے کر توتوں کی وجہ سے ہلاک کر دیں ۔ دلوں پر مہر کالگنا ؟ مسلسل گناہوں کی وجہ سے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے جسکا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ حق کی آواز کے لیے ان کے کان بند ہوجا تے ہیں پھر انذار یعنی ڈرانا، اور و عظ و نصیحت ان کے لیے بیکار ہوجاتے ہیں پھر انھیں کو ئی کچھ نہیں سنا سکتا ۔