فَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل رَّبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ
پھر اگر یہ آپ کو جھوٹا کہیں تو آپ فرما دیجئے کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے (٥) اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے نہ ٹلے گا (٦)۔
78: جھٹلانے والوں سے یہاں براہ راست تو یہودی مراد ہیں ؛ کیونکہ وہ اس بات کا انکار کرتے تھے کہ مذکورہ چیزیں ان پر ان کی سرکشی کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں، ضمناً اس میں مشرکین عرب بھی داخل ہیں جو قرآن کریم کی ہر بات کا انکار کرتے تھے، جس میں یہ بات بھی شامل تھی، دونوں فریقوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اگر ان کے قرآن کو جھٹلانے کے باوجود ان پر کوئی فوری عذاب نہیں آرہا ہے ؛ بلکہ دنیا میں انہیں خوشحالی بھی میسر ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے عمل سے خوش ہے اس کے بجائے حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ ہ اپنے باغیوں کو بھی رزق دیتا ہے اور خوشحالی سے نوازتا ہے البتہ یہ بات طے ہے کہ ان مجرموں کو ایک نہ ایک دن عذاب ضرور ہوگا جسے کوئی ٹلا نہیں سکتا۔