فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ
جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ! اگر تم اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو (١)۔
52: تشریح : پیچھے ان لوگوں کا ذکر تھا جو محض خیالی اندازوں پر اپنے دین کی بنیاد رکھے ہوئے ہیں، ان کی اس گمراہی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اس کو یہ حرام کہتے ہیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کہا ہے اسے حلال سمجھتے ہیں، چنانچہ ایک مرتبہ کچھ کافروں نے مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا کہ جس جانور کو اللہ تعالیٰ قتل کرے یعنی وہ اپنی طبعی موت مرجائے اس کو تو تم مردار قرار دے کر حرام سمجھتے ہو اور جس جانور کو تم خو داپنے ہاتھوں سے قتل کرتے ہو اس کو حلال قرار دیتے ہو، اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حلال وحرام کا فیصلہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے اس نے واضح فرمادیا ہے کہ جس جانور پر اللہ کا نام لے کر اسے ذبح کیا جائے وہ حلال ہوتا ہے اور جو ذبح کئے بغیر مرجائے یا جسے ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو وہ حرام ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے بعد اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر حلال وحرام کا فیصلہ کرنا ایسے شخص کا کام نہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان رکھتا ہو۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کفار کے مذکورہ اعتراض کے جواب میں یہ مصلحت بھی بتائی جاسکتی ہے کہ جانور کو باقاعدہ ذبح کیا جاتا ہے اس کا خون اچھی طرح بہہ جاتا ہے، اس کے برخلاف جو جانور خو دمرجاتا ہے اس کا خون جسم ہی میں رہ جاتا ہے جس سے پورا گوشت خراب ہوجاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت بیان فرمانے کے بجائے یہ کہنے پر اکتفا فرمایا کہ جو چیزیں حرام ہیں وہ اللہ نے خود بیان فرمادی ہیں، لہذا اس کے احکام کے مقابلے میں خیالی گھوڑے دوڑانا مومن کا کام نہیں، اس طرح یہ واضح فرمادیا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں یقیناً مصلحتیں ہوتی ہیں لیکن مسلمان کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی اطاعت کو ان مصلحتوں کے سمجھنے پر موقوف رکھے اس کا فریضہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم آجائے تو بے چون وچرا اس کی تعمیل کرے چاہے اس کی مصلحت اس کی سمجھ میں آرہی ہو یا نہ آرہی ہو۔