وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔
57: جب مسلمانوں کو حبشہ سے نکالنے کا مطالبہ لے کر مشرکین مکہ کا وفد نجاشی کے پاس آیا تھا تو اس نے مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلاکر ان کا موقف سنا تھا، اس موقع پر آنحضرتﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر ابن ابی طالب نے اس کے دربار میں بڑی مؤثر تقریر کی تھی جس سے نجاشی کے دل میں مسلمانوں کی عظمت اور محبت بڑھ گئی اور اسے اندازہ ہوگیا کہ آنحضرتﷺ وہی آخری نبی ہیں جن کی پیشینگوئی تورات اور انجیل میں کی گئی تھی، چنانچہ جب آنحضرتﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو نجاشی نے اپنے علماء اور راہبوں کا ایک وفد آپ کی خدمت میں بھیجا، آنحضرتﷺ نے ان کے سامنے سورۂ یسین کی تلاوت فرمائی جسے سن کر ان لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا کہ یہ کلام اس کلام کے بہت مشابہ ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا، چنانچہ سب لوگ مسلمان ہوگئے اور جب یہ واپس حبشہ گئے تو نجاشی نے بھی اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا، ان آیات میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔