قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ
آپ کہہ دیجئے! کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں۔
تفسیر وتشریح۔ ایک اہم مبحث : حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے ان دونوں سورتوں کو اپنے مصحف سے خارج کردیا تھا اور وہ ان کو قرآنی سورتیں ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس روایت کی بناپرمخالفین اسلام نے قرآن مجید کے مختلف ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور قرآن میں تحریف کا شوشہ چھوڑا ہے۔ لیکن اولاتوحضرت عبداللہ بن مسعود کایہ تفرد اور شذوذ قابل حجت نہیں ہے اور پھر حضرت عثمان نے سرکاری طور پر جو مصحف جمع کروایا تھا اس کی اجماعی حیثیت مسلم تھی اور اس میں یہ دونوں سورتیں درج تھیں لہذا حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کی بنا پر اان کی قرآنیت سے انکار کرنا سراسر باطل ہے۔ خصوصا جبکہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سورتوں کو نماز میں پڑھا ہے اور دوسروں کو پڑھنے کی تلقین کی ہے۔ ابوبکر باقلانی لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو ان کے قرآن ہونے میں شبہ نہیں تھا مگر جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مصحف میں لکھنے کے لیے نہیں فرمایا اس لیے وہ انہیں مصحف کے اندر درج کرنے میں متامل تھے اور عین ممکن ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے اپنی غلطی کو تسلیم کرلیاہو۔ دوسرا مبحث : روایات میں ہے کہ مدینہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا تھا اور تاریخی حیثیت سے یہ ثابت ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے متاثر ہوئے تھے اور لبید بن اعصم یہودی نے جادوچلایا جو انصار کے قبیلہ بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال اور کنگھی کسی طریقہ سے حاصل کرلی اور موئے مبارک اور کنگھی کے دندانوں کو بنی زریق کے کنویں ذروان یاذی اروان کی تہ میں دبادیا تھا اس سے آپ کے مزاج مبارک میں تغیر آگیا تھا مگر یہ تمام آپ کی ذات تک محدود ہے حتی کہ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ آپ پر کیا گزری ہے وحی پر اس کا کوئی اثرنہ تھا۔ اس حد تک یہ واقعہ بالکل صحیح ہے جسمانی طور پر نبی کو اذیت پہنچنے سے منصب نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر بعض لوگوں نے ان جادو والی احادیث کا ہی انکار کردیا ہے اور ان احادیث کو ان تتبعون الارجلامسحورا۔ کے خلاف سمجھا ہے مگر یہ تمام توجیہات غلط ہیں جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں۔ اس کے بعد اب ہم ان سورتوں کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہیں۔ بعض مضرات اسی قسم کی ہوتی ہیں کہ انسان ان کے دفع کرنے سے عاجز ہوتا ہے اور فطرتا کسی مافوق الفطرت ہستی کی طرف رجوع کرتا ہے اس عقیدے کی بنا پر کہ وہ ہستی عالم اسباب پر حکمران ہے اور ہمارے ادراک سے بالاتر ہے اور وہ حفاظت کرسکتی ہے۔ سورۃ فلق و سورۃ الناس میں اسی قسم کی پناہ مراد ہے بلکہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا ذکرآیا ہے اس سے یہی قسم مراد ہے اور عقیدہ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ اس نوع کا تعوذ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے۔ مشرکین اس قسم کے استعاذے غیر اللہ سے کرتے تھے مادہ پرست لوگ مادی ذرائع ووسائل کی طرف رجوع کرتے ہیں مومن کے لیے لازم ہے کہ اس قسم کے خطرات سے بچنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے۔ فلق سے مراد صبح کی سپیدی ہے جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کرظاہر ہوتی ہے پس (اعوذ برب الفلق) کے معنی یہ ہوئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں (کہ وہ مجھے مخلوق کے ہرقسم کے شر سے محفوظ رکھے)۔ العقد۔ یہ عقدہ کی جمع ہے، عقدہ کے معنی گرہ کے ہیں اور، نفث، کے معنی پھونکنے کے ہیں جبکہ گرہ میں پھونکنے کا محاورہ عموما کنایتا جادو سے ہوتا ہے پس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ میں جادوگرنیوں کے شر سے (اللہ رب العزت کی) پناہ چاہتا ہوں۔ (الواسواس الخناس)۔ سے مراد وسوسہ اندازی کرنے والا شیطان ہے جو وسوسہ ڈال کرپیچھے ہٹ جاتا ہے۔