إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
بیشک (بالیقین) انسان سراسر نقصان میں ہے (١)
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہی لیکن اس کا مکی ہونا راجح ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا فلاح کا راستہ کیا ہے اور تباہی وبربادی کی راہ کون سی ہے۔ امام شافعی نے اس سورۃ کی جامعیت کے پیش نظر فرمایا ہے کہ اگر لوگ اس سورۃ پر غور کریں تو یہی ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے صحابہ کرام بھی اس سورۃ کو بہت اہمیت دیتے اور دو آدمی ملنے کے بعد اس وقت جدا نہ ہوتے جب تک کہ سورۃ عصر کا ایک دوسرے کوسنالیتے۔ (٢) تاریخ انسانی کے انقلاب وتغیرات کو گواہ بناکر فرمایا ہے کہ انسانیت سراسر خسارے میں جاری ہے اور اس خسارے سے بچنے کے لیے صرف چاررہنما اصول ہی انسان کے کام آسکتے ہیں۔ ١۔ ایمان بااللہ۔ ٢۔ عمل صالح۔ ٣۔ ایک دوسرے کو حق کی وصیت۔ ٤۔ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین۔ قرآن مجید نے ان چاراصولوں کی تشریح کی ہے جو قرآن مجید کے مختلف مقامات پڑھ لینے کے بعد انسانی فکر میں راسخ ہوسکتے ہیں۔ تفسیر سورۃ العصر۔ قرآن حکیم کاہر اچھے مقصد کے لیے یہ اعلان ہے کہ آسمان کے نیچے نوع انسان کے لیے، انسانوں کی تلاشی کے لیے جستجوؤں کے لیے اور امیدوں کے لیے بڑی بڑی ناکامیاں ہیں بڑے بڑے گھاٹے، ٹوٹے ہیں لیکن دنیا کی اس عام نامرادی سے کون انسان ہے کون جماعت ہے کہ بچ سکتی ہے اور ناکامیابی کی جگہ کامیابی پاسکتی ہے؟ ناامیدی کی جگہ اس کے دل میں آشیانہ بناسکتی ہے ؟ وہ کون انسان ہیں وہ انسان کہ جو دنیا میں ان چارشرطوں کو قولا وعملا واپنے اندر پیدا کرلیں۔ جب تک یہ پیدانہ ہوں گی اس وقت تک دنیا میں نہ کوئی قوم کامیاب ہوسکتی ہے اور نہ ملک، حتی کہ ہوا میں اڑنے والے پرندے بھی دنیا میں کامیابی نہیں پاسکتے۔ ان چار شرطوں سے گھبرا نہ جانا، اور اگر ایک چیز عربی بھیس میں آجائے تو کیا تم انکار کرو گے چاہے وہ پہچانی ہوئی ہو؟ پہلی شرط وہ ہے جس کا نام قرآن مجید کی بولی میں، ایمان، ہے۔” الالذین آمنوا۔ تم جبھی کامیابی پاسکتے ہو جب تمہارے دلوں کے اندر روح کے اندر وہ چیز پیدا ہوجائے کہ جس کا نام قرآن مجید کی زبان میں ایمان ہے۔ ” ایمان“ کے معنی عربی می، زوال شک، کے ہیں یعنی کامل درجہ کابھروسہ اور کامل درجہ کا اقرار تمہارے دل میں پیدا ہوجائے جب تک کامل درجہ کا یقین تمہارے دلوں کے اندر پیدا نہ ہوگا کامیابی کا کوئی دروازہ تمہارے لیے نہیں کھل سکتا۔ شک کا اگر ایک کانٹا بھی تمہارے دل میں چبھ رہا ہے تو تم کو اپنے اوپر موت کا فیصلہ صادر کرنا چاہیے تم کامیابی نہیں ہوسکتی۔ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ تمہارے دل کے اندر ایمان، اطمینان، یقین، تمکن، اور اقرار پیدا ہو۔ لیکن کیا محض دل کایہ کام، دماغ کایہ فعل، تصور کایہ نقشہ کامیابی کو پورا کردے گا؟ نہیں۔ فرمایا کہ ایک دوسری منزل اس کے بعد آتی ہے جب تک وہ دوسری منزل بھی کامیابی کے ساتھ طے نہ کرلوگے۔ اس ایک پہلی منزل کو طے کرکے کامیابی نہیں پاسکتے۔ اس کا نام قرآن حکیم کی بولی میں، عمل صالح، ہے (وعملوالصالحات) یعنی وہ کام جو اچھائی کے ساتھ کیا جائے جس کام کو جس صحت اور جس طریقہ کے ساتھ کرنا چاہیے جوطریقہ اس کے لیے سچا طریقہ ہوسکتا ہے اس کام کو اس کے ساتھ انجام دینا۔ قرآن حکیم کایہ اصول توعام ہے ایمان کے معنی ہیں وہ یقین، وہ کامل اطمینان، وہ کامل اقرار کہ جو عمل سے پیدا ہوتا ہے وہ چیز جودماغ میں موجود تھی وہ ارادہ جودماغ میں پیدا ہوا تھا وہ پہلی منزل ہوئی جو مذہب میں آکر، ایمان، کا نام اختیار کرلیتی ہے بالکل جیسے وہ عمل دماغ ہے وہ عمل تصور ویقین ہے اس بناپرپہلی منزل ایمان کی ہے پہلی چیز یہ ہے کہ تمہارے دل کے اندر سچا ارادہ پیدا ہو۔ سچا عزم پیدا ہو۔ دوسری منزل یہ ہے (عملوالصالحات) صرف دماغ کی منزل طے کرکے قدم نہ ٹھہرجائیں بلکہ عمل بھی کرو، اور وہ جو صالح ہو، یعنی جوصبح طریقہ ہے اس کام کے انجام دینے کا۔ جب اس کو پورا کرلیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ فتح مندی اور کامیابی کی دو منزلیں تم نے کامیابی کے ساتھ طے کرلیں مگر پھر کیا تمہارا کام ختم ہوگیا ؟ اس کے بعد کیا تم منزل مقصوڈ تک پہنچ جاؤ گے؟ قران مجید کی عالمگیر صداقت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ ان دو منزلوں کے بعد دو منزلیں اور بھی باقی ہیں۔ اپنی ہمت تو آزمالو کہ ان کے لیے تمہارے تلوے تیار ہیں یا نہیں؟ تمہاری کمرہمت مضبوط ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے توممکن ہے کہ یہ پہلی دو منزلیں بھی تمہارے لیے سود مند ہوں۔ کیا ایک کڑی کے درست کرلینے کے بعد زنجیر کاپورا کام ہوگیا ؟ ایک منت کے لیے بھی نہیں۔ تم کیا ہو؟ اس بکھری ہوئی شکل میں بیکار ہو، اس میں تمہارا کوئی وجود نہیں، قرآن وجود مانتا ہے اجتماع کا۔ اس کے نزدیک وجود کڑیوں کا نہیں بلکہ زنجیر کا نام ہے تم میں سے ہر وجود ایک کڑی ہے اس کا کام پورا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ باقی کڑیوں کی خبر نہ لے جب تک باقی کڑیاں مضبوط نہ ہوں گی، زنجیر مضبوط نہیں ہوسکتی۔ اس لیے فرمایا کامیابی کاسفر کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک تیسری منزل تمہارے سامنے نہ آئے۔ وہ تیسری منزل ان فصیح وبلیغ معنوں میں ہے کہ : (وتواصو ابالحق وتواصو بالصبر)۔ تیسری منزل، وتواصوا بالحق۔ کہ تم جوایک کڑی تھے جس کو تم نے ایمان اور عمل صالح کی مضبوطی سے استوار کیا تمہارا کام ختم نہیں ہوا تمہارا فرض ہے کہ اس زنجیر کی دوسری کڑیوں کی طرف بھی توجہ کرو، اس کو یوں درست کرسکتے ہو کہ دنیا میں خدا کی سچائی کا پیغام پہنچاؤ۔ جب تک تم میں یہ بات نہ ہوگی کہ تمہارا دل سچائی کے اعلان کے لیے تڑپنے لگے جب تک توصی حق نہ کرو گے کامیابی تم کو نہیں مل سکتی۔ لیکن اگر تیسری منزل کے لیے تم تیار ہوگئے اگر توفیق الٰہی نے تمہاری دستگیری کی تو پھر آخری منزل کون سی ہے؟ وہ ہے کہ جوحق کی منزل کے لیے لازم ملزوم ہے اس کے ساتھ اس کی گردن اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ جدا نہیں کی جاسکتی۔ فرمایا کہ حق کی وہ وصیت کریں گے چنانچہ وہ حق کا پیغام سنائیں گے حق کی دعوت پہنچائیں گے حق کایہ حال ہے کہ حق کی راہ میں کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا جب تک وہ قربانیوں کے لیے قدم نہ اٹھائیں فرمایا کہ صرف حق ہی کاپیام وہ نہ پہنچائے بلکہ صبر کا بھی پہنچائے۔ (وتواصوا بالحق وتواصوابالصبر)۔ تم نے پانی بدبختی سے نہ صرف شریعت کے حکم کو بدلا ہے بلکہ اپنے طریق عمل سے شریعت کے لفظوں کو بھی بدل ڈالا، صبر کے معنی کیا ہیں؟ تم سمجھتے ہو کہ صبر کے معنی ہیں بے عزتی اور باطل کی پرستش وپوجا، جو شخص صبر کے معنی یہ سمجھتا ہے اس سے بڑھ کر قرآن تحریف لفظی کرنے والا کوئی نہیں۔ تحریف معنوی توبہت علماء کررہے ہیں لیکن تحریف لفظی یہ ہے کہ صبر کے معنی یہ کیے جائیں کہ اگر تمہارے اوپر حق کے مقابلہ میں مصیبت آجائے تو تم کو چاہیے کہ صبر کے گوشے میں پناہ لو۔ یعنی ہر طرح کی بے عزتی کو باچارگی کو، باطل پرستی کو قبول کرلو۔ صبر کے معنی بالکل اس سے مختلف ہیں۔ صبر کے معنی ہیں برداشت، کے صبر کے معنی ہیں، جھیلنے، کے صبر کے معنی ہیں، تحمل کے کہ جوقدم تم مقصد کی راہ میں اپنے محبوب وپیارے مقصد کے لیے اٹھاؤ اور اس میں طرح طرح کی مصیبتیں آئیں طرح طرح کی ڈراؤنی صورتیں آئیں، زنجیریں اور ہتھکڑیاں آئیں بلکہ ممکن ہے کہ تمہارے سامنے تختہ دار ہو اور اس پرایک پھندا لٹکے۔ یہ سب تمہارے سامنے آئے گا لیکن اگر حق کے پرستار ہو تو تمہارا فرض ہونا چاہیے کہ تمہارے اندر صبر ہو، تمہارے اندر برداشت کی وہ اٹل طاقت ہو وہ پہاڑ برداشت کا تمہارے اندر موجود ہو کہ دنیا کی کوئی مشکل، کوئی تاج وتخت اس پر فتح یاب نہ ہوسکے۔ یہ معنی صبر کے ہیں چنانچہ قرآن مجید کے مواقع استعمال پراگرغور کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ ہر جگہ صبر کے یہی معنی ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ قرآن مجید نے جوصداقت نوع انسانی کے آگے کامیابی کے لیے پیش کی ہے اور اب سے تیرہ سو برس پیشر جوایک اٹل اور لازوال پروگرام بنادیا ہے اس کی چار دفعات ہیں اگر وہ کوئی سفر ہے تو یہ اس کی چار منزلیں ہیں ہم کو ایک منٹ کے لیے غور کرنا چاہیے کہ کیا دنیا میں کوئی بھی کامیابی بلا ایمان مل سکتی ہے؟ کیا تم شک کاروگ اپنے پہلو میں لے کر دنیا کی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں پاسکتے ہو؟ کیا تم دنیا میں ایک مٹھی بھر جواورچاول بھی پاسکتے ہو؟ جب تک تمہارے اندر حق کے لیے طلب نہ ہو۔ کیا ایک لمحہ کے لیے دنیا کی کوئی کامیابی تمہیں اپناچہرہ دکھاسکتی ہے جب تک تم حق کی راہ میں قربانیاں چڑھانے کے لیے تیار نہ ہو، خدا کی اس کاینات کے ایک ایک ذرہ میں اس حقیقت کی ایک عالمگیر تصدیق موجود ہے۔ اور اس دنیا میں کامیابی کا کوئی چہرہ نہیں دیکھ سکتاجب تک وہ ایمان، عمل صالح، حق اور صبر کی منزل سے نہ گزرے۔ اللہ تعالیٰ کاہرقانون ہر اڑنے والے پرندے کے لیے ہے، کیا خدا اپنا قانون تمہارے لیے بدل دے گا؟ کیا خدا تمہاری غفلتوں کا ساتھ دے گا۔ اگر تم اپنی غفلت کی وجہ سے اس دھوکا میں پڑے ہو تو تم سے بڑھ کر اپنی موت کی طرف جانے والا کوئی نہیں۔ اسلام ایک مکمل مذہب کے تمام اجزاء کا مجموعہ ہے اس لیے اس نے عقائد وعبادات کے سلسلے میں اخلاق کو بھی نمایاں جگہ دی۔ لیکن خاص طور پر جن اخلاق حسنہ کی تعلیم دی وہ تمام ترفوجی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس نے صبر توکل اور عزم واستقلال کی ہر موقع پر تعلیم دی، اور یہی چیزیں ہیں جن کے ذریعے سے کوئی فوج میدان جنگ میں ثابت قدم رہ سکتی ہے اسلام دنیا میں حق وصداقت کی اشاعت کے لیے آیا حق وصداقت کامیدان صرف جہاد کے ذریعے سے فتح ہوسکتا ہے صبر جہاد کی حقیقت کے لیے اصل شرط ہے۔ پس اس نے (اسلام نے) ہمیشہ حق وصبر کو لازم ملزوم قرار دیا۔ قرآن مجید نے ایمان اور اہل ایمان کی نسبت جو کچھ کہا ہے اس میں کوئی بات بھی اس قدر نمایاں نہیں، جس قدر یہ کہ سچے اہل ایمان خوف اور غم دونوں سے محفوظ ہوجائیں۔ حقیقت یہی ہے کہ انسانی زندگی کی سعادت کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی شقاوت کی ساری سرگزشت انہی دو لفظوں میں سمٹی ہوئی ہے خوف اور دکھ۔ جونہی ان دوباتوں سے رہائی مل گئی ساری سعادتیں اس کے قبضے میں آگئیں قرآن حکیم نے یہ حقیقت دوسر پیرائے میں بھی بیان کی۔ مثلا سورۃ عصر اسی حقیقت کا اعلان ہے۔