تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں۔ (١)
(٤) اس سورۃ میں الروح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام)۔ اور ان کے فضل وشرف کی بنا پر دیگر فرشتوں سے ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے۔ تفسیر سورۃ القدر۔ (مولانا ابوالکلام آزاد)۔ عالم تقدیر خاموش نہیں ہے وہ ایک امام ناطق ہے اس نے مجموعی طور پرتمام عالم کی قسمت کا فیصلہ ازل ہی میں کردیا تھا لیکن اشخاص واقوام کی تقدیر کا فیصلہ ہمیشہ رہتا رہتا ہے۔ کارکنان قضا وقدر بہت سی قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرچکے تھے مگر ایک بادیہ نشین قوم پہاڑوں کے دامن دبی پڑی تھی انہی پہاڑوں کے غار سے آتشین شریعت کا ایک شرارہ اڑا اور دفعۃ خرمن جہل وضلالت پر برق خاطف بن کرگرا۔ اس مردہ قوم کی سوئی ہوئی تقدیر نے مدت کے بعد ایک خاص رات میں کروٹ بدلی۔ اس لیے اس رات کولیلۃ القدر کہا گیا کیونکہ اسی رات میں اس کے کارنامہ اعمال کو قرآن حکیم کے ذریعہ سے معین ومقدر کردیا گیا تھا۔ (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) ” ہم نے اس کولیلۃ القدر میں نازل فرمایا۔ لیلۃ القدر قیل لیلۃ الشرف والفضل وقیل لیلۃ التدبیر والتقدیر وھواقرب۔ (احکام القرآن لابن عربی)۔ یہاں فرمایا کہ قرآن کریم لیلۃ القدر میں اترا۔ اور سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ رمضان (شھررمضان الذی انزل فی القرآن )۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ لیلۃ القدر سے رمضان ہی کی رات مراد ہے نزول قرآنی سے مقصود یہ ہے کہ نزول کا آغاز لیلۃ القدر اور رمضان المبارک میں ہوا ورنہ یہ ظاہر ہے کہ پورا قرآن مجید نجما نجما ٢٣ برس میں نازل ہوا۔ قرآن اور الکتاب کا اطلاق جس طرح کل پر ہوتا ہے اسی طرح اس کے ایک جز پر بھی ہوسکتا ہے قرآن مجید کے ہر ٹکڑے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن اور الکتاب کہا ہے۔ لیکن بعض مفسرین کو خیال ہوا کہ (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) سے مقصود پورے قران کانزول ہے اس لیے انہوں نے طرح طرح کی تاویلیں کی ہیں مثلا کہا گیا کہ قرآن کریم رمضان کی بیس راتوں میں جبرائیل کودیا گیا اور انہوں نے بیس سال کے اندر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرنازل کیا لیکن قاضی ابوبکر ابن عربی لکھتے ہیں : ” ومن جھالۃ المفسرین انھم قالوا ان السفرۃ القتہ الی جبرائیل فی عشرین لیلۃ والقاہ جبرائیل الی محمد علیھما السلام فی عشرین سنۃ وھذا باطل لیس بین جبرئیل وبین اللہ واسطۃ ولابین جبرائیل و محمد علیہما السلام واسطۃ۔ (احکام القرآن جلد ٢ ص ٣١٧)۔ اور مفسرین کی یہ جہالت ہے جو کہتے ہیں قرآن کریم بیس راتوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کودیا اور انہوں نے بیس سالوں کے اندر محمد پر نازل کیا سوایسا کہنا بالکل باطل ہے نہ تو اللہ تعالیٰ اور جبرائیل میں کوئی واسطہ ہے اور نہ جبرائیل اور نبی میں کوئی واسطہ۔ عربی زبان میں متکلم کے لیے، انی، اور، انا، کی دو ضمیریں ہیں جو بہ ترتیب واحدمتکلم وجمع متکلم کے لیے مستعمل ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم کودنی اکی نشاۃ اولی کاموسس بنانا چاہاتو فرمایا (انی جاعل فی الارض خلیفہ)۔ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے لیے معمولی صیگہ واحد متکلم کا استعمال کیا ہے کیونکہ اشیاء وامثال کاپیدا کرنا اس کی قدرت کاملہ کے نزدیک کوئی غیر معمولی اہمیت نہ رکھتا تھا لیکن بطون وارواح کی نشاۃ جدید دنیا کے لیے مایہ صد رحمت وبرکت تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب کسی پیغمبر کو اس نشاۃ حقیقہ کا ذریعہ بنایا ہے تو اس موقع پر اپنے لیے ضمیر متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے جو واحد کی نسبت تعظیم وشرف کا پہلورکھتا ہے یہ تعظیم درحقیقت اس جدید روح سعادت وہدایت کی اہمیت وعظمت کو نمایاں کرتی ہے جو دنیا میں ظہور پذیر ہونا چاہتی ہے۔ حضرت آدم نے دنیا کا قالب موزوں تیار کردیا تھا لیکن وہ روح سے یعنی ترقی یافتہ دین الٰہی کی حقیقی روح سے خالی تھا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت نوح کو یہ امانت دے کربھیجا جوایک عظیم الشان روحانی انقلاب تھا پس ضمیر تعظیمی سے اس کا اظہار فرمایا۔ (انا ارسلنا نوحا) کہ ہم نے نوح کو بھیجا۔ لیکن یہ روح امتداد زمانہ سے فرسودہ ہوگئی تھی بلکہ یہ سچ ہے کہ بالکل مردہ ہوگئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعہ سے اس روح مروہ کو اس گل یژمردہ کو اس بخت جفتہ کو پھر زندہ کیا شگفتہ کیا، بیدار کیا، یہ ایک عظیم الشان انقلاب تھا جس نے نقشہ عالم کو پلٹ کردیا تھا پس ہمیشہ اس کی اہمیت بھی ضمیر تعظیمی کے پردے میں نمایاں کی گئی۔ (انا نحن نزلناالذکر) ہم ہی ہیں کہ ہم نے اپنے ذکر کو نازل کیا۔ (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) ہم نے اس کولیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اسی کتاب ذوالحظر والبال کو خدا نے کو ثر بھی کہا ہے کہ وہ مایہ خیرکثیر ہے۔ (انااعطیناک الکوثر) ہم نے تم کو کوثر یعنی قرآن عطا فرمایا۔ یہاں بھی قرآن کا ذکر متکلم جمع تعظیمی سے کیا۔ اسی کے ذریعہ سے دین ابراہیمی زندہ ہوا اسی لیے اس تیغ خیر کے عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی سب سے بڑی یادگار قربانی کے قائم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ اسی سورۃ الکوثر میں فرمایا (فصل لربک وانحر) تو اپنے خدا کی نماز پڑھ اور قربانی کر۔ اللہ تعالیٰ نے اسی دین کے ذریعہ سے ابراہیم کی یادگار اور ذکر عظیم کو قائم رکھا۔ (وجعلنا لھم لسان صدق علیا)۔ اور ہم نے ان کے ذکر خیر کو رفعت وبلندی عطا کی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر جمیل بھی اسی کی برکت سے غلغلہ انداز عالم روح و ایمان ہے۔ (ورفعنالک ذکرک) اسی لیے ان دونوں مقامات میں بھی جمع متکلم کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ مذہب کی پاک روح مردہ ہوگئی تھی لیکن اس رات میں اعادہ معدوم اور حیات بعدالممات ہوا وہ کتم عدم سے عالم شہود میں اتری۔ (تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم) اسی رات میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں۔ فرشتے اور روح اس رات میں اترتے ہیں مگر بتدریج پورے ایک مہینے میں اترتے ہیں کیونکہ دنیا کا دامن دفعۃ ان برکات وفضائل کے سمیٹنے کی وسعت نہیں رکھتا۔ دامان نگہ تنگ، گل حسن تو بسیار گل چین نگاہ توز دامان گلہ دارد لیکن یہ ملائکہ کیا ہیں اور اس روح کی حقیقت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے خود اسی آیت میں اس حقیقت کو واضح کردیا ہے (من کل امر سلام) یعنی وہ ملائکہ اور روح امن اور سلامتی ہیں جو دنیا کو یکسر منیت وسلامتی کی برکتوں سے معمور کردیتے ہیں۔ یہ سکون یہ اطمینان کامل یہ سلامتی، یہ امن عام جو ہم پرآسمان سے اترا صرف عرب کے لیے مخصوص نہ تھا بلکہ وہ مشرق ومغرب دونوں کو محیط ہے ہمارا آفتاب اگرچہ مغرب سے طلوع ہوا تھا جوہمارا قبلہ ایمان ہے لیکن اس کی شعاعوں نے مشرق کے افق کو بھی روشن کردیا جہاں سے دنیا کا سورج نکلتا ہے اور جہاں سے صبح کا ستارہ طلوع ہوتا ہے۔ (ھی حتی مطلع الفجر)۔ طلوع ہونے کی جگہ تک یعنی مشرق تک پہنچ جائے گا۔ دنیا نے اس وعدے کی صداقت کو دیکھ لیا جب خدا کے پاک فرشتے یعنی قرآن نے مشرق ومغرب دونوں کو اپنے اپنے پروں کے نیچھے چھپالیا (ان اللہ علی کل شئی محیط)۔ امن عالم کایہ پیغام کیا ہے؟ اور وہ کیونکر مشرق ومغرب تک پہنچایاجائے گا۔ قرآن حکیم نے دوسری آیتوں کے ذریعہ سے اس نکتہ کو حل کردیا ہے۔ (انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ۔۔۔ تا۔۔۔ ھوالسمیع العلیم) ترجمہ۔ ہم نے قرآن کو ایک مبارک رات میں اتارا کیونکہ ہم دنیا کو اس کی ضلالت کے نتائج سے ڈرانے والے تھے تمام انتظامات الٰہیہ جوحکمت ومصلحت عالم پر مبنی ہیں اسی رات میں طے پاتے ہیں ازاں جملہ قرآن مجید کانزول جواسی رات میں شروع ہوانیز ہمیں اپنا رسول بھیجنا مقصود تھا جس کا ظہور اللہ تعالیٰ کی رحمت کانزول ہے۔ اب ان دونوں سورتوں کے تطابق وتشاکل پر غور کرنا چاہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ قدر میں فرمایا (اناانزلناہ فی لیلۃ القدر) اور یہاں فرمایا (اناانزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ) اسی لیے یہ دونوں راتیں ایک ہی ہیں وہاں فرمایا (تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر سلام) اور یہاں فرمایا (فیھا یفرق کل امرحکیم، امرمن عندنا) اس بنا پر امر سلام اور امر حکیم جس کی تنزیل وتقسیم لیلۃ القدر میں خدا کے حکم سے کی گئی ہے دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ لیکن یہ سوال ہے کہ خود وہ امر سلام اور امرحکیم کیا چیز ہے؟ دوسری آیتوں نے اس کی بھی تفسیر کردی ہے۔ (الر۔ تلک آیات الکتاب الحکیم۔ اکان للناس عجبا۔۔۔ تا۔۔۔۔ عندربھم) یونس)۔ ترجمہ۔ یہ قرآن حکیم کی آیات ہیں پھر کیا لوگوں کو تعجب ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک آدمی پروحی کی تاکہ وہ لوگوں کو ڈرائے اور مومنوں کو اس بات کامژدہ سنائے کہ اللہ تعالیٰ کے تخت کے نیچے ان کا قدم جم گیا ہے؟۔ اس لیے یہ امر حکیم اور یہ امر سلام خود قرآن حکیم ہے جولیلۃ القدر میں نازل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ قدر میں قرآن حکیم کی چند خصوصیات کا اجمالی ذکر فرمایا تھا لیکن اس آیت میں وہ خصوصیتیں بہ تفصیل بیان فرمائی ہیں۔ سورۃ قدر میں فرمایا تھا کہ وہ سورج طلوع ہونے کی جگہ تک پھیل جائے گا یہ نہایت مجمل طرز خطاب تھا سورۃ دخان میں اس کی تفسیر بھی کردی۔ (فیھا یفرق من کل امر حکیم۔ امر من عندنا)۔ یعنی قرآن حکیم کی آیتیں ہمارے حکم سے ایک پیغمبر پر تقسیم کی جاتی ہیں تاکہ وہ دنیا کے سامنے ان آیات کولے کے جائے اور ہر شخص کے آگے اس خوان کرم کو بچھادے تاکہ ہر شخص اپناحصہ لے لے۔ (انا کنا مرسلین رحمۃ من ربک) لیکن دنیا غفلت کی نیند سورہی تھی۔ اس لیے یہ ابر رحمت پہلے گرج جاتا کہ دنیا جاگ اٹھے اس نے اپنی چادر غیب سے پہلے اسی ہاتھ کو نکالا جس میں بجلی کا تازیانہ تھا۔ (یا ایھا المدثر قم فانذر) اور چادراوڑھنے کی ضرورت تھی اس لیے وہ گرجا، چمکا، تڑپا۔ (انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنامنذرین) لیکن درحقیقت اس کایہ وصف عارضی تھا ورنہ رفق وملاطفت اس کا مایہ خمیر اور عنصر حقیقی ہے۔ (عزیز علیھم ماعنتم حریص علیکم بالمومنین روف رحیم) اس لیے وہ روئی کے گالے سے بھی زیادہ نرم وسفید بادل کاٹکڑا تھا جو آب شیریں کا خزانہ اپنے ساتھ رکھتا تھا اگرچہ ابتدا میں بجلی کی کڑک اس کا مظہر ورود ہوئی یہ انداز وعید یہ قہر وغضب اس قوم کی شامت اعمال کا نتیجہ تھی ورنہ پیغمبر امی خدا کی طرف سے صرف بشارت اور لطف وکرم کا مجسمہ بناکربھیجا گیا تھا،(انا کنا مرسلین رحمۃ من ربک) لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت صرف عرب کے ساتھ نہ تھی بلکہ اس ابر کرم نے تمام مشرق ومغرب کو جل تھل ایک کردیا۔ چنانچہ دوسری جگہ رحمۃ من ربک کی تفسیر کردی گئی (وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین) ہم نے تجھ کو تمام دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت بناکربھیجا۔ لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر صرف اس لیے فضیلت نہیں ہے کہ اس میں عبادت کا ثواب تمام راتوں سے زیادہ ملتا ہے بلکہ اس بنا پر بھی کہ اسمیں ہم کو ایک کتاب دی گئی اور مشرق ومغرب میں ہم کو اس کی منادی کرنے کا حکم دیا گیا بادشاہوں کی منادی طبل وعلم کے ساتھ کی جاتی ہے لیکن خدا کی منادی تکبیر وتہلیل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رمضان کے بعد عید کا حکم اسی لیے دیا گیا تاکہ تکبیر وتہلیل کی مقدس صداؤں میں اسلام کے جاہ وجلال، نفوذ وقوت اور وسعت واثر کا سماں دنیا کو نظر آجائے (ولتکبرواللہ علی ماھداکم ولعلم تشکرون)۔ پھرآہ تمہاری غفلت کیسی شدید اور تمہاری گمراہی کس قدر ماتم انگیز ہے کہ تم لیلۃ القدر تو ڈھونڈتے ہو پر اس کو نہیں ڈھونڈتے جولیلۃ القدر میں آیا ہے اور جس کے ورود سے اس رات کی قدرومنزلت بڑھی اگر تم اسے پالو تو تمہارے لیے ہر رات لیلۃ القدر ہے۔ ہر شب، شب قدر است، اگر توقدر بدانی۔