سورة التين - آیت 2

وَطُورِ سِينِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور طور سینین کی (١)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تفسیر سورۃ والتین۔ (مولانا ابوالکلام آزاد)۔ قرآن حکیم کے فہم ودرس کاجوذوق آپ کے خط سے ظاہر ہے اس سے یہ فقیر نہایت خوش وقت ہوا اللہ تعالیٰ آپ کے اس ذوق میں برکت وثبات عطا فرمائے اور آپ کے امثال ونظائر سے ہمارے جدیدی مدارس کی عمارتیں معمور ہوجائیں۔ آپ کا سوال دراصل مسئلہ اقسام القرآن سے تعلق رکھتا ہے یعنی قرآن حکیم کی جن سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے حروف قسم کے ساتھ بعض اشیاء کا ذکر فرمایا ہے ان کی حقیقت اور جواب قسم سے ان کاربط وتعلق۔ ازاں جملہ سورۃ والتین ہے اور اسمیں سب سے پہلے تین وزیتون کی قسم نظر آتی ہے درس وفہم حقائق قرآنیہ کی مختلف راہیں ہیں اور بسا اوقات ان کی حقیقت مختلف نظروں کو مختلف روشیوں میں نظر آتی ہے تین وزیتون کے متعلق ایک تفسیر امام رازی کی تھی جس کو مولانا مظہرالدین صاحب نے اپنے مضمون میں نہایت خوبی سے پیش کیا ہے اور ان کے خصائض کو نوع انسانی کے جسم وحقیقت کے خصائض سے تشبیہ دی ہے لیکن اسمیں کوئی شک نہیں کہ سورت کے موضوع اور بقیہ اقسام کے ربط کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے مزید غوروفکر اور جستجوئے حقیقت کے لی قدم اٹھانا چاہیے۔ چند مقامات مہمہ : سب سے پہلے چند مقامات آپ کے سامنے آجائیں جن پر ہمارے تمام مباحث تفسیر مبنی ہیں۔ ١۔ قرآن حکیم کی ہر سورت کا ایک موضوع ہے اور اول سے آخر تک وہ سورت اسی پر مبنی ہے جس قدر مطالب درمیان میں آگئے ہیں وہ سب کے سب اسی ایک موضوع اصلی کے ناگزیر وضروری اطراف بحث وتعلیم ہیں۔ ٢۔ ہر سورت کی ابتداء وانتہاء اس موضوع معلوم کرنے کی کنجی ہے۔ ٣۔ جب ہر سورت کا ایک موضوع ہے تو یہ چیز بھی ضمنا آپ کو معلوم ہوگئی کہ قرآن مجید کی تمام آیات باہم مربوط ومسلسل ہیں اور ایک نظم واسلوب حقیقی کے ساتھ سلسلہ بیان بتدریج اجمال سے تفصیل، دعوی سے دلیل، اور تعلیم سے امثال ونظائر کی طرف بڑھتا اور کھلتا جاتا ہے اسی کو قرآن نے تصریف آیات سے جابجا تعبیر کیا ہے صرف کے معنی لغت میں، رد الشئی من حالۃ الی حالۃ کے ہیں کما صرح بہ الاصفہانی)۔ ٤۔ قسم کے معنی شہادت ودلائل کے ہیں قرآن نے جس چیز کو حروف قسم کے ساتھ پیش کیا ہے وہ ایک شاہد ہے جو اپنے مابعد دعوی کے لیے دلیل پیش کرتا ہے ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ خدا شاہد ہے کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولا۔ سورۃ والفجر میں ہے : ھل فی ذالک قسم الذی حجر۔ یعنی ان چیزوں میں صاحب عقل کے لیے بڑی ہی شہادت ہے۔ منافقین کہتے تھے کہ : نشھد انک لرسول اللہ۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب میں فرمایا، اتخذوا ایمانھم جنۃ۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنالیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ منافقین نے شہادت دی تھی کہ قسم نہیں کھائی تھی پس اللہ نے خود ہی شہادت کو قسم سے تعبیر کرکے حقیقت کھول دی۔ لیکن چونکہ عام مفسرین متاخرین نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا اس لیے وہ اس دھوکے میں پڑگئے کہ قسم اس چیز کی کھائی جاتی ہے جس میں بڑائی اور عظمت ہو اس لیے تمام قسموں میں صرف عظمتوں ہی کو تلاش کرتے رہے ان کی شہادت حق ودلالت حقائق پرنظر نہ ڈالی۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ قسم ایک طرح کی دلیل ہے لیکن چونکہ اصل حقیقت سے پوری طرح متاثر نہیں ہیں اس لیے اس غلطی کو شروع کردیتے ہیں جو اعتراف معنی دلیل کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی تھی یعنی تین اور زیتون کی عظمت اور بزرگی کو ثابت کرنا چاہتے ہیں پھر جب اور کچھ نظر نہیں آتا تو فرماتے ہیں کہ تین کا مزہ بہت اچھا اور وہ معدے کے لیے مسہل وملین ہے اور زیتون کی لکڑی کے اندر تیل ہے گویا نہ تو دنیا کے اندر کوئی اور پھل ملین ہے اور نہ کوئی اور شے اپنے اندر روغن رکھتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ متاخرین میں یہ فضیلت ومزیت اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت شیخ الاسلام ابن یمیہ اور ان کے ارشد تلامذہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے لیے مخصوص کردی تھی کہ حقائق ومعارف کتاب وسنت کے جمال حقیقی کو بے نقاب کریں اور جو پردے متاخرین نے یکے بعد دیگرے ڈال دیے ہیں اسکو اللہ کی بخشی ہوئی قوت مجددہ ومصلحہ سے چاک چاک کردیں چنانچہ تاریخ سلام کے ان دوعظیم الشان انسانوں نے اقسام القرآن کی اس حقیقت کو جابجا واضح کیا ہے اور موجودہ زمانے میں سب سے بڑا خوش نصیب انسان وہ ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ ان مصلحین حقیقی کی تصنیفات کے فہم ودرس کے لیے کھول دے کہ ان کانور علم، مشکوۃ نبوت سے براہ راست ماخوذ تھا۔ موضوع سورۃ والتین۔ دنیا میں انسان اپنے اندر دیکھتا ہے کہ تو اس کو جذبات موثرات کا ایک عجیب مخلوط اور متضاد ہجوم نظر آتا ہے باہر دیکھتا ہے تو اس کی مایوسیاں اور ناکامیوں اور اس کی کامیابیوں اور امیدوں سے زیادہ نظر آتی ہیں۔ جذبات کے اعتبار سے وہ ایک ہی وجود ہے جو کبھی فرشتوں کی طرح محبت وہمدردی اور شرافت وعفت کا پیکر ہے اور کبھی قتل وہلاکت اور خونریزی وسفاکی میں سانپوں کے زہر سے بدتر اور درندوں کے پنجوں سے اسفل ہے وہی انسان جوجانوروں کو تکلیف میں دیکھ کر ہمدردی کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے بسا اوقات اپنے بھائیوں کے بے دریغ خون بہانے لگتا ہے تاکہ ان کے خون سے اپنی خود غرضی کی پیاس بجھائے۔ خارجی اعمال کے لحاظ سے اس کی بوقلمونی اور زیادہ عجیب ہے وہ ایک ہی وجود ہے جوکبھی تاج وتخت حکومت پر جلوہ آرا ہوتا ہے اور کبھی کتوں کی طرح غلامی کی خاک پر لوٹتا ہے کبھی اس کی ہمت سربہ فلک عمارتوں کے بنانے، پہاڑوں کو کاتنے، سمندروں کو مسخر کرنے سے نہیں تھکتی اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پتوں کی ایک دیوار کھڑی کرنا بھی اسکے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ کبھی بجلی سے ڈرتا ہے طوفان سے لرزتا ہے آسمان کو دہشت وخوف سے دیکھتا ہے اور پھر اس قدران کے مظاہرہ وشئون سے مرعوب ہوجاتا ہے کہ ان کی پرستش وبندگی شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ان کے آگے صرف جھکنے اور عاجزی ہی کے لیے ہوں ان کے تنزل وتسفل کے لے یہ مثال بھی کافی نہیں ایک وقت آتا ہے جبکہ دنیا میں ان پتھروں کے ٹکڑوں کے لیے جو راستوں میں ٹھوکریں کھاتے ہیں عزت ہوتی ہے پر انسان کے لیے کوئی عزت باقی نہیں رہتی وہ انسان ہو کر پتھروں کے آگے ماتھا ٹیکتا، ان کو اپنے آقا اور خداوند کی طرح پوجتا اور اپنی حیات وممات کو ان کی رضا وغضب میں منحصر یقین کرتا ہے کتازیادہ سے زیادہ انسان کے آگے جھکتا ہے کہ وہ کتے سے اشرف واعلی ہے گھوڑا اور ہاتھی انسان کے چاکر بن جاتے ہیں کہ انسان کی عظمت کا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر انسان کتے سے بھی بدتر اور گھوڑے اور ہاتھی سے بھی اسفل ہے کہ اپنے سے اعلی کے آگے نہیں بلکہ اپنے ہی جیسے کے سامنے یا اپنے سے بھی بدتر کے آگے جھکتا اور اوندھا ہوتا ہے۔ تم کسی کتے کو نہیں دیکھو گے کہ وہ کسی کتے کے آگے عاجزی کرے لیکن یہ انسان ہی ہے کہ اپنے جیسے ایک دوسرے انسان کو چاندی وسونے کے تخت پر بٹھاتا ہے اور پھر کتوں کی طرح اس کے آگے زمین پر لوٹتا اور گردمذلت چاٹتا ہے۔ اعمال انسانی کے اس اختلاف وتضاد اور انفعالات وتاثرات عملیہ کی اس بوقلمونی ورنگارنگی میں انسانی فطرت اصلیہ کی حقیقت گم ہوجاتی ہے کچھ نہیں کھلتا کہ یہ عجیب جانور جو سب سے بڑا بھی ہے اور سب سے چھوٹا بھی اس کی اصلی متاع فطرت کیا تھی جو اسے دی گئی تھی وہ فی نفسہ شیطان ہے یافرشتہ؟ بھیڑیا ہے یا بکری؟ تاریکی ہے یاروشنی؟ نیک ہے یابد؟ اچھا ہے یابرا؟۔ مسئلہ خیر وشر فطرت انسانی : یہ سوال انسان کی اصلی فطرت وجبلت کی نیکی اور بدی کا ہے یعنی کیا بالطبع وہ نیک بنایا گیا ہے یابد؟ یا دونوں؟ اس کے داخلی جذبات وداعیات کی کشائش اور خارجی اعمال ونتائج کامیدان تو بظاہر نوروظلمت، ملکوتیت وبہیمیت، حسن وبدروئی، علو وتسفل، عظمت وذلت، نیکی وبدی دونوں کا مجموعہ نظر آتا ہے اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ دراصل وہ کیا ہے؟۔ د نیا میں ابتدا سے لے کراب تک اس سوال کے متعلق تین مختلف مذاہب نظر آتے ہیں :۔ ١۔ انسان کی اصلی جبلت وفطرت وبدی ہے لیکن باہر کی تربیت اس کو عارضی طور پر خوشنما کردیتی ہے وخصائص فطرت کے اعتبار سے ایک خالص حیوان ہے لیکن تربیت پذیریری کے اعتبار سے ان پر فوقیت رکھتا ہے درخت کی جڑ اور شاخیں متناسب نہیں ہوتیں لیکن ان کا کاٹ کر اور چھیل کرہم درست کرلیتے ہیں فطرت کی تمام خلقت کا یہی حال ہے اصل فطرت میں قوم واعتدال نہیں ہوتا چھیل چھال کر اسے سڈول بنایاجاسکتا ہے یہی حال انسان کا ہے باہر کی صناعی تربیت سے ایک نیارنگ اپنے اوپر چڑھالیتا ہے لیکن جب اوپر کارنگ کمزور ہوجاتا ہے تو اصلی تہ نظرآتی ہے بڑے سے بڑے مہذب انسان بھی غسہ وانتقام میں درندہ بن جاتا ہے اس لیے کہ اس کا مصنوعی رنگ اتر گیا اور اس کی اصلی فطرت شر ابھر آئی۔ یہ مذہب، مذہب شریا، مذہب یاس ہے وہ دنیا کی ہر چیز کو شر اور یاس کی نظر سے دیکھتا ہے یونان میں، دیوجانسی کلبی،(ڈائیگونس) اسی فلسفہ اخلاق کا مشہور پیشوا گزرا ہے۔ ٢۔ دوسرامذہب ان لوگوں کا ہے جو انسان کی فطرت کو بالکل ایک سادہ حالت میں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں نہ تونیکی ہے اور نہ بدی ہے نہ وہ کانٹوں کی چبھن ہے اور نہ پھولوں کی مہک۔ وہ محض ایک منفعل اثر پذیر اور نقش انگیز وجود ہے جو اپنے ساتھ کچھ نہیں لاتا مگر دنیا میں آخر جو کچھ پاتا ہے لے لیتا ہے وہ ایک دامن ہے جس کے اندرسوائے گنجائش وعمق کے اور کچھ نہیں اسمیں ہر طرح کابوجھ بھرلینے کی صلاحیت ہے مگر ابھی کوئی چیز اس میں بھری نہیں گئی ہے اب اگر اس کو پتھر ملا ہے تو اسی کو بھرلے گا پھول ملے ہیں تو ان کا اٹھالے گایہ تشبیہ واضح تریہ کہ انسان کی فطرت ایک سفید کاغذ ہے جس پر کوئی نقش نہیں ہوتا نہ تو کانٹے کی تصویر ہوتی ہے اور نہ پھول کی اب جو کچھ اس پر بنایاجائے گا بن جائے گا۔ حکمائے یونان اس مذہب کا ایک دور رہ چکا ہے معتزلہ نے بھی زیادہ تراسی کی پیروی کی تھی آج یورپ میں بھی حکمائے اخلاق کا ایک بڑاگروہ یہی کہتا ہے۔ ٣۔ تیسرامذہب، جامع خیر وشر، ہے یعنی وہ کہتا ہے کہ آدمی زادہ طرفہ معجون ست۔ نیکی اور بدی دونوں اس کی فطرت میں موجود ہیں بالقوۃ وہ شیطان اور فرشتہ دونوں ہے قوت ملکوتی اور بہمی دونوں رکھتا ہے دنیا میں آخر جس قسم کے خارجی موثرات ملتے ہیں انہی کے مطابق اس کی کوئی قوت نشوونما پاتی اور بروز کرتی ہے اگر وہ اثرات اس کے لیے جمع ہوجائیں جن کو تم نیکی کے لقب سے پکارتے ہو تو اس کی قوت ملکوتی ابھرگی اور چمکے گی لیکن اگر برخلاف اس کے بدی کا گردوغبار چھاجائے گا تونیکی کی چمک ماند پڑجائے گی اور بدی کی تاریکی پھیل جائے گی اس مذہب کے پیروں کے نزدیک انسان کے اندر بالقوہ ملکوتیت وبہیمیت دونوں ہیں مگر ان کا فعل تربیت وتاثرات سے نمود پکڑتا ہے گویا نیکی اور بدی دوبیج ہیں جن کو انسان اپنے ساتھ دنیا میں لاتا ہے پھر جس بیچ کو تربیت تاثر کا پانی مل جاتا ہے وہی پھولتا پھلتا اور تنا وردرخت بنتا ہے۔ دنیائے قدیم وجدید دونوں میں اس مذہب نے بہت ترقی مقبولیت حاصل کی ہے ارسطو کا بھی یہی مذہب تھا اور تقریبا تمام حکمائے اسلام نے اسی کو قبول کیا ہے ابن مسکویہ جس نے یونانی اخلاق کو سب سے زیاہ مشرح ومنظم لکھا ہے اسی مذہب کا داعی ہے دور جدید کے حکمائے اخلاق میں بھی یہی مذہب زیادہ مقبول ہے امام فخرالدین رازی وغیرہ تمام مفسرین قرآن میں اسی مذہب کو پیش نظر رکھتے ہیں اور وھدیناہ النجدین، اور فالھمھافجورھا وتقوھا۔ وغیرہ ایات کریمہ کی تفسیر اسی بنا پر کرتے ہیں کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ خیر وشر فطرت کے متعلق دنیا کا غالب اور عام اعتقاد یہی ہے اور چونکہ انسانی اعمال ونتائج میں خیر وشر دونوں نظرآتے ہیں اس لیے ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہی مذہب زیادہ صحیح واحق ہے۔ القرآن الحکیم : قرآن حکیم نے دین الٰہی کا دوسرانام العلم رکھا ہے۔ (والئن التبعت اھواء ھم بعدالذی جاءک من العلم) اور اگر تو نے انکی خوہشوں کی پیروی کی بعد اس کے کہ تیرے پاس علم یعنی دین الٰہی آچکا ہے۔ ہر جگہ گمراہ قوموں کی بغی وضلالت پر ملامت کرتے ہوئے کہا،(فما اختفلوا الا من بعد ماجاء ھم العلم بغیا بینھم) جاثیہ ع ٢)۔ عاملین قرآن کی نسبت کہا (فی صدورالذین اوتوالعلم) وہ ان کے سینوں میں ہے جن کو علم دیا گیا ہے۔ نیز کہا کہ یہ برہان ہے بصائر ہے نور ہے بصیرت ہے اور ہر جگہ کفر کو کہا کہ وہ ظن ہے، شک ہے، تخمین ہے، اور اٹکل کی باتیں اور قیاسات ہیں (مالھم بذالک من علم ان ھم الایظنون)۔ پھر دین الٰہی کو ماننے اور اطاعت کرنے کو ایمان کہا اور ایمان والوں کو مومن ایمان امن سے ہے اور امن کے معنی طمادیہ النفس۔ اور زوال خوف وشک کے ہیں ان تمام تصریحات سے واضح ہوا کہ دنیا میں علم ویقین صرف ایک ہی ہے اور وہ وحی الٰہی ہے اور اس کے سواجس قدر ادعائے علم کے اعلانات ہیں ظن اور شک سے آگے نہیں بڑھ سکتے نیزیہ کہ ایمان کے معنی یقین حاصل کرنے کے ہیں اور مومن وہ ہے جس کے پاس شک کی جگہ یقین ہو یہی وجہ ہے کہ مومن اور غیر مومن کو، الذین یعلمون، اور والذین لایعلمون، اور الاعمی، اور البصیر، سے تشبیہ دی یعنی، صاحبان علم، اور بینا۔۔ اور ارباب جہل اور اندھے۔ اس بنا پر علم اضافی اور محدود تو دنیا کے پاس ہے مگر علی الاطلاق، العلم، قرآن کے سوا اور کوئی نہیں اور قرآن جس کے پاس ہے وہی دنیا میں سب سے بڑا عالم اور سب سے بڑا جاننے والا ہے۔ پس شک وظن کے تمام اختلافات کواسی، العلم، اور البصائر، کے آگے عرض کرنا چاہیے کہ وہی ایک حکم حقیقی ہے۔ اس عاجز نے جہاں تک غور کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ خیروشر فطرت کے متعلق قرآن حکیم کا فیصلہ ان تینوں مذہبوں سے الگ اور تمام دنیا میں وہ پہلی آواز ہے جو انسانیت کے شرف فطری وخیریت کو ان تمام ظنون واوہام کی پیدا کردہ ذلتوں سے نجات بخشی ہے۔ ان تینوں مذہبوں میں پہلا مذہب فطرت انسانی کو زمین کو گھاس اور مٹی کے تودوں سے زیادہ حقیر قرار دیتا ہے گھاس حیوانات کی غذا ہے اور مٹی سے دیوار بنائی جاسکتی ہے مگر یہ مذہب کہتا ہے کہ انسانی فطرت میں مضرت کے سوا کوئی نفع نہیں یہ مغرور انسان کا اپنی نسبت پہلا مایوس فیصلہ تھا۔ اس کے بعد دوسرامذہب سامنے آتا ہے اور اس کو ایک سادہ صفحہ قرار دیتا ہے جس میں نہ تونیکی کا نقش ہے اور نہ بدی کا، بلاشبہ یہ مذہب انسان کے لیے پہلے مذہب جیسا بے رحم نہیں تاہم یہ بھی اس کی فطرت کو کوئی شرف نہیں بخشتا اور ایک منفعل اور ہر طرح کے اثر کو قبول کرنے والا قرار دے کر چھوڑ دیتا ہے۔ تیسرامذہب سب سے زیادہ مقبول ہے اور سب سے زیادہ عام اور اس بارے میں انسانی علم کی سب سے بری جست ہے لیکن وہ بھی پھولوں کے ساتھ کانٹوں کو برقرار رکھتا ہے انسان کو فرشتگی اور شیطنت کا مساوی حصہ بخشتا ہے اس کی غایت تحقیق یہ ہے کہ بالفطرت اس میں نیکی بھی ہے اور بدی بھی پس وہ جس طرح اچھا ہے برابھی ہے اگر بدی کاپلہ نہ جھکا تونیکی کے پلے کو بھی زیادہ وزن نصیب نہیں نتیجہ کے اعتبار سے اس کی فطرت یہاں بھ شرافت واحترام سے محروم ونامراد ہے۔ وذالک مبلغھم من العلم۔ ان تینوں مذہبوں نے فطرت انسانیہ کی حقیقت کو کھودیا اور وہ اپنا سراغ نہ پاسکے۔ یہ مذاہب حکمائے اخلاق اور عام افکار وآرائے انسانی کے ہیں لیکن آج جس قدر مذاہب دنیا میں موجود ہیں ان کا فیصلہ بھی یہی ہے اکثر حالتوں میں تو وہ پہلے مذہب کی دعوت دیتے ہیں بعض حالتوں میں اگر ان کے شارحین تاویلات رکیکہ سے کسی بلند درجہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بھی آخری مذہب سے آگے ان کا قدم نہیں بڑھتا۔ لیکن قرآن مجید یعنی، العلم، دنیا میں اس لیے نہیں آیا کہ فطرت کے محجوب جمال کو اور زیادہ مستور کردے بلکہ اس کی دعوت کی اولین حقیقت یہ تھی کہ انسانی ضلالت وظنون نے فطرت وحقیقت پر جو پردے ڈال دیے ہیں انکواس طرح چاک چاک کردے کہ انسان اپنے ہی آئینہ کے اندر اپنی صورت دیکھ لے پس وہ اولین آواز ہے جس نے سب سے پہلے اس گمشدہ حقیقت کاسراغ بتلایا اور دعوی کیا کہ انسان کی فطرت نہ تو محضصفحہ سادہ ہے نہ صرف بدی اور شرکی ناپاکی ہے اور نہ ملکوتیت اور بہیمیت ہی کا مرکب ہے بلکہ وہ ایک خالص وکامل نیکی ہے جس میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں اور کوئی قوت اس کے اندر ایسی نہیں رکھی گئی ہے جس میں بدی اور برائی کا اصلا بیج ہو، وہ صرف نیکی ہی لے کر دنیا میں آتا ہے نیکی ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور صرف نیکی ہی کے لیے اس کو سب کچھ دیا گیا ہے لیکن وہ دنیا میں آکر فطری نیکی کی حفاظت نہیں کرت اس کی نشوونما کی راہیں بند ہوجاتی ہیں اور اس کے طبیعی ابھار کو اسطرح دبادیا جاتا ہے جس طرح کسی پودے پرایک پتھر رکھ کر اس کی قوت پامال کردی جائے پس انسان کے اندر جو کچھ ہے وہ خالص نیکی ہے اور جس قدر بھی برائی ہے وہ اس کا کسب خارجی ہے نیکی اس کا فطری عمل ہے اور بدی غیرفطری، خارجی اور یکسرصناعی، اگر وہ نیک ہے تو یہ فطرت ہے اگر بد ہے تو یہ تصنع ہے اس کو بیج ایک ہی دیا گیا ہے جو صرف نیکی کا ہے جب وہ ابھرتا ہے تو تم کہتے ہو کہ یہ نیکی ہے جب پامال کردیا جاتا ہے تو تم کہتے ہو کہ بدی ہے حالانکہ تم نہیں جانتے کہ پھل اور پتوں کانہ لگنا کوئی الگ وجود نہیں بلکہ درخت کی نشوونما کے عدم کا نام ہے۔ خدا نے اس کو روشنی دی ہے اور اس کے اندر آئینہ رکھ دیا ہے مگر وہ دنیا میں آتا ہے اور باہر کے پردوں سے اندر کی روشنی کو ڈھانپ دیتا ہے باہر کے گردوغبار سے اندر کے آئینہ کو مکدر کردیتا ہے اب تم کہتے ہو کہ وہ تاریک ہے مگر نہیں سوچتے کہ اس کی اصل روشنی تھی، تاریکی نہ تھی اس نے روشنی کو چمکنے نہ دیا تم کہتے ہو کہ اس کے دامن میں زنگ اور غبار تھا حالانکہ زنگ اور غبار نہ تھا بلکہ صافی وشفاف آئینہ تھا باہر سے گرد اڑ رہی تھی اس کو چاہیے تھا کہ دامن سے ڈھانپ لیتا مگر اس نے گردوغبار کو پسند کیا اور آئینہ کی چمک کی قدر نہ کی۔ اب وہ غبار آلودہے، کچھ دنوں کے بعد بالکل تاریک ہو کر لوہے کا ایک سیاہ ٹکڑابن جائے گا مگر اس لیے نہیں کہ اس کے پاس لوہا تھا بلکہ صرف اس لیے کہ آئینہ کو صاف نہ رہنے دیا۔ یہی انسان کی وہ فطرت اصلی ہے جس کو قرآن حکیم فطرت صالحہ قرار دیتا ہے یعنی وہ فطرت جو بالکل اپنی اصلی نیکی کی حالت میں ہے اور باہر کی کسی بدی سے اس کو آلود نہیں کیا گیا ہے یہی فطرت صالحہ دین الٰہی ہے یہی دین قیم ہے یہی دین حقیقی ہے یہی صراط مستقیم ہے یہی فطرت اللہ ہے یہی صبغت اللہ ہے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں سب سے زیادہ جامع وحاوی نام اسی کا، اسلام ہے۔ اور اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ انسان کی اصلی فطرت اسلام ہے اور کفر ایک صناعی اور غیر فطری عمل ہے اگر ایک انسان مسلم ہے توس کو یوں کہو کہ وہ اپنی اصلی فطرت صالحہ پر قائم ہے اس کی فطری روشنی نور رے رہی ہے اس کی فطرت خیر کی قندیل کو باہر کا کوئی طوفان بجھانہ سکا اور وہ ویسا ہی ہے جیسا فطرت نے اسے بنایا تھا لیکن اگر ایک انسان مسلم نہیں ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ فطرت حقیقی کا چراغ بجھ گیا اس کے اندر کا آئینہ زنگ آلود ہوگیا گردوغبار کی تو برتو تہوں نے اس کوسیاہ کردیا اور وہ فطرت کی صورت حقیقی کی جگہ ایک مسخ شدہ غیر فطری ومصنوعی جانور بن گیا معصیت سے یہ فطری آئینہ زنگ آلود ہوتا ہے اور کفر زنگ آلودگی کی وہ آخری حالت ہے جبکہ آئنہ بالکل سیاہ ہوگیا اور ایک دھندلی سی چمک بھی اسمیں باقی نہ رہی۔ (ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم، وعلی ابصارھم غشاوہ) اور (سواء علیھمء انذرتھم ام لم تنذرھم لایومنون) وغیرہ تصریحات قرآنیہ میں اسی ضلالت کی طرف اشارہ ہے اور لھم قلوب لایفقھون بھا (وجعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ) اولئک کالانعام بل ھم اضل) میں اسی فطرت صالحہ کی پامالی اور ایک غیر فطری حالت مسخ وانقلابات کو واضح کیا گیا ہے یہ وقت تفصیل کا نہیں اشارات پر اکتفا کیجئے۔ اور ٹھیک ٹھیک یہی معنی ہیں مسلم کی اس مشہور حدیث کے جس کی شرح میں عجیب عجیب حیرانیاں لوگوں کو ہورہی ہیں کہ ” ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ وابواہ یھودیۃ وینصرانیہ۔ دنیا میں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر اپنی اصلی فطرت پر۔ پھر (یہودی) والدین اسے یہودی بنالیتے ہیں اور (نصرانی) والدین نصرانی۔ ایک دوسری روایت میں ہے۔ ترجمہ۔ جس قدر بچے پیدا ہوتے ہیں سب ملت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں۔ انسان کی فطرت صالحہ ہی کا نام اسلام ہے اور ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اپنی اصلی اور بے میل فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پس انسان کاہر بچہ اسلام پرپیدا کیا گیا اب وہ دنیا میں آتا ہے اور باہر کی ہوائیں اس کے اندر روشنی کو تہ وبالا کرنے لگتی ہیں اگر یہودیت کے اثرات اس نے پائے تویہودیت کا جھونکا اس کے چراغ فطرت گل کردے گا اگر مجوسیت کا طوفان اٹھاتواسی میں اس کی کشتی فطرت ڈگمگانے لگے گی۔ پر یہ جو کچھ ہوگا باہر کا اثر وکسب ہے اس کے اندر کی فطرت اسلام تھی یعنی صرف نیکی وخیر تھی۔ تمہید بڑھتی جاتی ہے اور یہ مبحث خود ایک مستقل مبحث ہے اگر اس بارے میں قرآن حکیم کی مزید تصریحات جمع کی جائیں تو صحیفوں کے صفحے اسی میں صرف ہوجائیں یہی معنی ہیں ذریت انسانی کے، بلی، کہنے کے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا، الست بربکم، کیا میں ہی تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ پس انسان کی فطرت اصلی تصدیق ہے جو اس کے اندر ودیعت کردی گئی اور اب اگر بلی، کی جگہ یعنی تصدیق ربوبیت کی جگہ وہ انکار کرتا ہے تو یہ اس کی فطرت کی صدا نہیں ہے ایک غیر فطری صناعی ہے۔ اور اسی فطرت صالحہ کا نام قرآن حکیم نے، قلب سلیم، رکھا ہے یعنی وہ دل جو بالکل صحیح وسالم ہو اور اپنی اصلی تندرستی واعتدال پر قائم ہو کوئی نیاعارضہ اور بیماری اسے نہیں لگ گئی ہے حضرت ابراہیم کی نسبت فرمایا کہ، اذ جاء ربہ بقلب سلیم، جبکہ وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم یعنی فطرت صالحہ غیرآلودہ کے ساتھ حاضر ہوئے تم کو معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم کی یہ فطرت صالحہ وہ تھی جس کو باہر کا کوئی بڑے سے بڑا جلوہ بھی مرعوب نہ کرسکا اور اس کے اندر کی روشنی پکاراٹھی کہ : (انی وجھت وجھی للذی فطرالسموات والارض حنیفا وماانا من المشرکین)۔ اور یہی وجہ ہے کہ خدا کی شریعت کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ اس فطرت صالحہ پر انسان نے صناعی وخارجی ضلالت کاجوزنگ چرھادیا ہے اسے دور کردے اور اس کی اصلی روشنی پھر چمک اٹھے یہی وجہ ہے کہ ہدایت الٰہی کو قرآن مجید نے، ذکر، کے لفظ سے تعبیر کیا اور ضلالت وکفر کو، نسیان، کہا۔ ذکر، کے معنی حفظ، اور یاد، کے ہیں نسیان، بھولنے کو کہتے ہیں چونکہ فطرت اصلی کو انسان بھلا دیتا ہے اور اسی کا نام ضلالات ہے پس، ضلالت، نسیان ہوئی اور، ہدایت، فطرت اصلی کے بھلائے ہوئے سبق کو پھر تازہ کردینا ہے اسی لیے اس کو ذکر کہا۔ نسیان کی انتہاء غفلت ہے غفلت کو قرآن مجید نے منتہائے ضلالت قرار دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ : (لھم قلوب لایفقہون بھاولھم اذان لایسمعون بھا ولھم اعین لایبصرون بھا اولئک کالانعام بل ھم اضل والئک ھم الغافلون)۔ ترجمہ۔ ان کے دل ہیں جن سے سمجھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے سنتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے نہیں (چونکہ ان قوی سے کام نہی لیتے اس لیے) یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ۔ یہ لوگ وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایک اور آیت بھی نسیان کے متعلق اسی سرسری نظر میں سن لو : (الذین نسواللہ فانسھم انفسھم) وہ لوگ کہ انہوں نے اللہ کے رشتے کو بھلایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے نفسوں کوہی بھول گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نفسوں کو یعنی اپنی فطرت صالحہ کو بھول گئے کیونکہ فطرت صالحہ تو وہ تھی جس نے کہا، بلی، یعنی خدا کی ربوبیت اور اس کے رشتہ کا اقرار کیا تھا اب اگر وہ اس ہستی کے رشتے کو بھلا رہے ہیں جن کے آگے فطرت اصلی، بلی، کہہ چکی ہے تو اس رشتے کو نہیں بھلا رہے ہیں بلکہ انی فطرت ہی کو بھلا رہے ہیں۔ عود الی المقصود : بہرحال قرآن حکیم انسان کی فطرت کو خالص نیکی قرار دیتا ہے اور بدی سے اس کی فطرت صالحہ کو پاک بتلاتا ہے وہ کہتا ہے کہ اس کی فطرت صرف تندرستی ہے۔ سورۃ والتین کاموضوع اصلی یہی حقیقت ہے یعنی اس میں انسان کی فطرت صالحہ کی اسی گمشدگی اصلیت کو واضح کیا گیا ہے اس موضوع کے لیے قرآن مجید نے مفصل درس بھی دیے ہیں لیکن یہ من جملہ مجمل مگر جامع وحاوی دروس کے ہے۔ گزشتہ صحبت میں یہ مسئلہ ایک حد تک واضح ہوچکا کہ سورۃ والتین کاموضوع اصلی فطرت صادقہ انسانی کے شرف وخیریت کا اعلان ہے اور یہ بتلانا ہے کہ انسان نے اپنی حقیقت وفطرت کے معلق جس قدر مایوس فیصلے کیے ہیں وہ سب غلط ہیں نہ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت کو شر اور بدی کے لیے بنایا ہے اور نہ اس کی حقیقت اس قدر حقیروذلیل ہے کہ وہ کائنات ہستی کے ہر وجود ظہور کے آگے جھک جائے اور ان کے کرشموں کے سامنے اپنے تئیں حقیر ولاچار سمجھ لے۔ اگر وہ اپنی فطرت صادقہ کو عمل غیرصالح پامال نہ کرے تو وہ دنیا میں بڑی سے بڑی عظمت حاصل کرسکتا ہے۔ اس موقع پر اس قدر اور سمجھ لینا چاہیے کہ انسان کا اپنی فطرت صادقہ سے بے خبر رہنا دراصل اس کی تمام ناکامیوں کی جڑ ہے۔ کائنات عالم کے دائرہ حقیقت کے لیے اس کا وجود بمنزلہ ایک نقطہ ومرکز کے ہے۔ پس جب تک انسان اپنے نفس کی حقیقت کو نہیں پائے گا وہ تمام عالم کی حقیقت کو نہیں پاسکتا۔ اور حقیقت کو نہیں پاسکتا تو اپنی تخلیق کی غرض ومقصد کو بھی پورانہیں کرسکتا۔ سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ وہ سمجھے کہ دنیا میں جو کچھ ہے اس کے لیے ہے وہ کسی کے لیے نہیں ہے لیکن اپنے شرف وعظمت اور خیریت وحرمت کے احتجاب نے اس حقیقت تک پہنچنے نہ دیا، وہ کائنات عالم کے ادنی ادنی جلووں سے مرعوب وہیبت زدہ ہوگیا اور سمجھنے لگا کہ جب بجلی کی چمک مجھ سے بڑی ہے سمندر کا طوفان مجھ سے زیادہ قہار ہے شیر کاپنجہ مجھ سے زیادہ قوی ہے ہاتھی کا وجود مجھ سے زیادہ عظیم ہے حتی کہ مچھر کی ڈنک اور رینگنے والے زہریلے کیڑوں کا زہر بھی میرے لیے سخت خوفناک ہے تو پھر میری ہستی کیا ہے اور مجھ میں کون سی بڑائی ہوسکتی ؟ اسی خیال کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف تو اس نے اینٹ اور پتھر تک کی پوجا شروع کردی اور دوسری طرف اپنے وجود کو اس قدر ذلیل سمجھ لیا کہ جھکنے، گرنے، لوٹنے اور بندگی کرنے کے لیے اس کے اندر ایک قوی اور دائمی استعداد پیدا ہوگئی۔ اس صناعی وخارجی ضلالت سے ہر قوت نے غیر فطری فائدہ اٹھایا اور جب چاہا ایک ادنی کرشمہ قوت دکھلا کر اس کے جسم ودماغ کو اپنے آگے جھکادیا۔ تحقیر وتذلیل نفس انسانی کی یہ انتہائی حالت اسی کا نتیجہ تھی کہ اس نے اپنی فطرت کی خیریت کو نہ سمجھا اور ہمیشہ اس کے خلاف فیصلہ کیا۔ اس نے چارپایوں کو دیکھا اور سانپوں اور بھیڑیوں کی درندگی وخوفناکی پرنظر ڈالی، پھر اسی طرح اپنی نسبت بھی فیصلہ کرلیا کہ اسمیں بدی اور بہیمیت کے سوا کچھ نہیں ہے اور اگر نیکی کا جز ہے بھی تو وہ بدی کے ساتھ ممزوج ومخلوط یعنی ملا جلاہے۔ یہ تنزل انسانی کی اصلی علت اور انسانیت اعلی اور خلقت کبری کی گمشدگی تھی سورۃ والتین نے اس کاسراغ بتلایا ہے پس فی الحقیقت اس کاموجوع انسانیت اعلی کا اعلان ہے۔ انسان کے اندر جو کچھ ہے وہ اس کا نفس ہے باہر جو کچھ ہے وہ آفاق ہے قران حکیم نے جابجا اسے تنبیہ کی ہے کہ اپنے اندر بھی دیکھیے اور اپنے سے باہر کو بھی سمجھیے یعنی انفس وآفاق دونوں میں تفکر کرے۔ (سنریھم آیاتنا فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق)۔ عنقریب وہ اللہ کی نشانیاں آفاق اور انفس میں یعنی اپنے سے باہر اور اپنے اندر دیکھیں گے یہ مشاہدہ حقیقت اصلی کو ان پرکھول دے گا اور وہ پالیں گے کہ بلاشبہ دین الٰہی کی دعوت حق ہے۔ دوسری جگہ زور دیا (وفی انفسھکم افلا تبصرون) تم اپنے اندر نہیں دیکھتے کہ کیا ہے؟۔ اگر تم دیکھو تو معلوم ہوجائے کہ شریعت الٰہی کوئی نئی چیز تم سے نہیں چاہتی، تمہاری فطرت اصلی ہی کا ظہور خالص چاہتی ہے اسی کا نام دین قیم ہے۔ استشہاد وطریق استشہاد : سورۃ والتین نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے اس پر شہادت پیش کی ہے بیان بمنزللہ دعوی کے ہے اور شہادت اس کی دلیل ہے دعوی تمہیں معلوم ہوچکا ہے ،(لقد خلقناالانسان فی احسن تقویم) ہم نے انسان کو بہترین حالت میں پیدا کیا ہے۔ اب دلیل کا حصہ باقی ہے لیکن قبل اس کے کہ دلائل پر نظر ڈالیں اس پر غور کرلینا چاہیے کہ اس غلطی کا صلی سبب کیا تھا جس کو سورۃ والتین دور کرنا چاہتی ہے؟۔ اس کا اصلی سبب اعمال سبب انسان کی رنگا برنگا اور بوقلمونی تھی انسان نے جب اپنے آپ کو دیکھنا چاہا تو اپنی فطرت کو نہ دیکھ سکا کہ وہ محجوب ومستور ہوگئی تھی اس نے اپنے اعمال وافعال کو دیکھا، اور ان کے اندر ایک عجیب متضاد اختلاف نظر آیا۔ اس نے دیکھا کہ نیکی اور بدی دونوں باہم دست وگریبان ہیں اگر ایک طرف اس کے اندر نیکی وشرافت کے رقیق ولطیف جذبات نظر آتے ہیں تو دوسری طرف درندگی وبہیمت کی خوفناکی بھی نظر آتی ہے اگر وہ فرشتوں کی طرح محبت واحسان کی آنکھیں رکھتا ہے تو بھیڑیوں اور بچھوؤں کی طرح اس کے پاس حرص وغرض کاپنجہ اور خون ریزی وسفاکی زہریلی ڈنک بھی ہے اگر ایک طرف بادشاہوں کے زرنگارتخت اور حاکموں اور فرماں رواؤں کی عطمت وکبریائی نظر آتی ہے جو انسانی عطمت وجلال کی شہادتیں دے رہی ہیں توانہی کے سامنے غلاموں کی پابہ زنجیر صفیں بھی دست بستہ کھڑی ہیں جو انسان کو کتے اور بلی سے بھی زیادہ حقیرثابت کررہی ہیں کہ نہ توکتے نے اپنے جیسے کتے کے آگے سرجھکایا اور نہ بلی نے کبھی بلی کو سجدہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ یہی انسان حاکم بھی ہے محکوم بھی، ساجد بھی ہے مسجود بھی، عالم بھی ہے جاہل بھی، عاقل بھی ہے ابلہ بھی، نیک بھی ہے بد بھی، شہنشاہی کا تخت، حکمرانی کا فرمان، فتح مندی کی تلوار، نیکی کی فرشتگی اور سچائی کی قدوسیت بھی وہی ہے اور غلامی کی خاک، محکومی کی ذلت، مقتول کی گردن، بدی کی شیطنت اور شرکی رذالت بھی اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ یہی انسان ہے جو رات کو دروازوں پر پاسبانی کرتا ہے تاکہ اس کے ہم جنس گھر کے اندر امن سے سوئیں اور یہی انسان ہے کہ دوسری طرف سے آکر مکان میں نقب بھی لگاتا ہے تاکہ اپنے ہم جنسوں کو دکھ اور نقصان پہنچائے۔ اگر عبادت گاہوں کے اندر فرشتے نہیں آتے بلکہ انسان ہی ہوتے ہیں تو ڈاکوؤں کے جتھوں کے اندر بھی بھیڑیے جمع جمع نہیں ہوتے بلکہ آدم ہی کی اولاد ہوتی ہے۔ پس اعمال انسانی کی اس رنگا رنگی اور نور وظلمت کے اس اختلاط کو دیکھ کر وہ اس دھوکے میں پڑگیا کہ جس مخلوق کے اعمال کایہ حال ہے اس کی فطرت کا بھی یہی حال ہوگا اگر وہ اپنے اعمال کے اندر نیکی اور بدی اور عظمت وذلت دونوں رکھتا ہے تو اس کی فطرت کے اندر بھی نیکی وبدی اور فوز خسران دونوں ہوں گے اگر وہ اپنے اعمال اور نتائج اعمال کے اندر عظمت کا تخت اور ذلت کی بندگی دونوں جلوے دکھلاتا ہے تو اپنی فطرت کے اندر بھی طاقت وتسلط اور مقہوریت ومخذولیت دونوں رکھتا ہوگا۔ اس نے اعمال کو دیکھ کر فطرت کے لیے حکم لگانا چاہا اور اس نے افراد کی حالت کو دیکھ کرنوع کے لیے فیصلہ کردیا۔ اسی غلطی نے اس کے اندر یہ عقیدہ پیدا کردیا کہ ہم صرف بڑائی اور نیکی ہی کے لیے نہیں ہیں جیسا کہ بعض افراد نظر آتے ہیں بلکہ حقیر ہونے اور برے رہنے کے لیے بھی ہیں جس طرح کی اکثر افراد شہادت دیتے ہیں پس نیکی اور برائی دونوں کے لیے اس میں ایک مایوس قناعت پیدا ہوگئی ہے اور اس غیرصالح قناعت نے عزم اور ہمت کی پیاس کو باکل بجھادیا ہے ایک غلام ساری عمر غلامی اور بندگی میں خوش خوش گزار دیتا ہے اور کبھی اس کے اندر یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ میں بھی ویسا ہی انسان ہوں جیسا میرا آقا۔ پھر میں کیوں صرف بندگی کے لیے ہوں اور یہ کیوں آقائی کے لیے ؟ ایک محکوم قوم ویسی ہی خوشی اور سکھ کے ساتھ غلامی کی خاک پر لوٹتی ہے جس طرح ایک حاکم قوم عزت وعظمت کے تخت پر فرمانروائی کرتی ہے اور کبھی اس کے اندر یہ بے قرار نہیں اٹھتی کہ ہم بھی انسان ہیں ہمارے پاس بھی وہ سب کچھ ہے جوان حاکموں کے پاس ہے پھر ہم کیوں ذلت کے لیے ہیں اور یہ کیوں عظمت وفرماں روائی کے لیے؟ ہزاروں مزدور ہیں جوکارخانوں میں پھر کیوں کی طرح چکرکھاتے ہیں اور اس میں اتنے ہی خوش ہوتے ہیں جس قدر کارخانہ کا مالک۔ لیکن کبھی ان میں یہ تڑپ نہیں اٹھتی کہ اگر ہم بھی چاہیں تو کارخانہ کے مزدوری کی جگہ کارخانہ کے مالک بن سکتے ہیں اور یہ کیا ہے کہ ہماری ہی طرح کے انسان ہمارے مالک بن گئے؟ پھر اسی طرح دیکھو کہ ہزارہا انسان ہیں جوطرح طرح کی بدیوں اور خباثتوں کی گندگیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر کبھی نہیں سوچتے کہ نیک وپاک انسان بھی آخرہماری ہی طرح انسان ہیں یہ کیوں ہے کہ وہ نیک ہیں مگر ہم نیکی کے لیے جنبش نہیں کرسکتے۔ ہر طرح کی مثالیں سامنے لاؤ اور ادنی واعلی حالتوں کے اختلاف کے جس قدر پہلو ہوسکتے ہیں ان سب پر نظر ڈالو تم پاؤ گے پستی وذلت اور بدی وشرارت کی ہرزندگی کے اندر ایک باطل قناعت وبے حسی، قوتوں کو پامال اور انسانیت اعلی کی تمام بڑی سے بری طاقتوں کو ضائع کررہی ہے۔ اب غور کرو کہ یہ حالت کیوں پیدا ہوئی ؟ اس کاسبب بجز اس کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا کہ چونکہ انسان کے اعمال اور اس کے ثمرات متضاد اور مخلوط ہیں اور اکثر حالتوں میں پستی وناکامی کے نمونے زیادہ اور عظمت وکامرانی کے امثال کم ہیں اس لیے ہر نامرادی کی حالت میں انسان نے نامرادوں پرنظر ڈالی اور ہر برائی کی زندگی میں اس نے بروں کو دیکھا یعنی نامرادوں کو دیکھ کر اپنی نامردای پر، گرے ہوؤں کو دیکھ کر اپنی گری ہوئی حالت پر بروں کو دیکھ کر اپنی برائیوں پر وہ ایک طرح کا استدلال کرنے لگا اور ان سے شہادت لاکر اپنی حالت کو فطری اور لابدی سمجھنے لگا۔ اس غلط استشہاد نے اس کے اندر غلط وقناعت پیدا کی اس کے احساس کو فنا کردیا، اس کی طلب بجھ گئی اور وہ اپنی ذلت اور برائی کو اصلی اور شدنی چیز سمجھ کر ایک بناوتی خوش حالی میں مبتلا ہوگیا۔ غلام کے اندر آقا بننے کا کیوں جوش نہیں اٹھتا ؟ اس لیے کہ وہ اپنے جیسے غلاموں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ صرف میرے ہی لیے نہیں ہے بلکہ سب کے لیے ہے اور اس لیے کہ ایک قدرتی چیز ہے جس پر صرف صبر ہی کرلینا چاہیے پس اس نے غلاموں پر نظر ڈالی اور غلاموں سے اپنی غلام پر شہادت لایا۔ اگر وہ غلاموں کی جگہ آقاؤں کو دیکھتا اور ان سے شہادت لیتا کہ آخر وہ بھی توانسان ہی ہیں اور اسی کرہ ارضی کی پیٹھ پربستے ہیں تو فورا اس کا احساس مردہ زندہ ہوجاتا اور اپنی فطرت کے شرف وخیریت کو پالیتا۔ ایک مزدور کیوں اسی میں خوش ہے کہ اٹھارہ گھنٹے کی محنت کے معاوضہ میں صرف ایک روتی پائے؟ اس لیے کہ وہ اپنی ادنی حالت کے لیے اپنے ہی جیسے ادنی حالت کے مزدوروں کو دیکھتا ہے اور ان سے استشہاد کرتا ہے اگر وہ ان سے استشہاد کرتا جن کی وہ مزدوری کرتا ہے تو اس کے اندر بھی ولولہ عزم وطلب پیدا ہوتا ایک بد انسان کس طرح برائی میں اپنے اندر تسکین وقناعت پیدا کرلیتا ہے اس لیے کہ وہ بروں ہی کودیھتا ہے اور انہی سے استشہاد کرتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ انسان اس لیے بھی بنایا گیا ہے کہ برائی کرے جیسا کہ سب کررہے ہیں اور جب سب کررہے ہیں تو وہاں ایک اور سہی۔ بیا کہ رونق ایں کارخانہ کم نہ شود ز زہد ہم چوتوئی یابہ فسق ہم چومنی۔ پس حاصل مبحث یہ ہے کہ انسان نے فطرت انسانی کی حقیقت وخیریت کے سمجھنے میں غلطی کی کیونکہ اس نے : ١۔ اعمال انسانی کو خیر وشر اور عظمت وذلت کا مجموعہ دیکھا۔ ٢۔ پس وہ سمجھا کہ انسان کی فطرت میں بھی خیر وشر اور ذلت وعظمت دونوں ہیں۔ ٣۔ اس نے اعمال کی راہ سے فطرت کو دیکھنا چاہا اور افراد کی حالت کو دیکھ کر نوع کو بھی اسی پر قیاس کرلیا۔ ٤۔ اسی اعتقاد کا اثر اس کے تمام اعمال حیات پر پڑا۔ جب اس نے انسانی فطرت کو خیر وشر کا مجموعہ سمجھ لیا تو اس کے اندر شر تسفل کی حالت میں ایک گمراہ قناعت پیدا ہوگئی وہ سمجھنے لگا کہ جب برائی فطرت ہی میں ہے تونیکی کانہ ہونا کوئی ایسی چیز نہیں جس پر افسوس کیا جائے اور جس کے لیے اچنبھا ہو۔ اس کی یہ حالت دراصل ایک استشہاد واستدلال ہے جو وہ تمام ادنی وسافل حالتوں کے افراد سے کرتا اور عموما اعمال شر وتسفل کو اپنے سامنے لاتا ہے۔ سورۃ والتین کے مطالب کی ترتیب :۔ سورۃ والتین کاموضوع اور مسئلہ خیر وشر فطرت کے متعلق انسان کی غلطی کے اصلی اسباب معلوم ہوگئے اب دیکھو کہ سورۃ والتین نے اس حقیقت کے اظہار وثبوت کے لیے مطالب کی ترتیب کیا اختیار کی ہے؟۔ ١۔ اس نے دعوی کیا کہ انسان کی فطرت ہم نے نیک وصالح پیدا کی ہے وہ صرف شرف وعظمت کے لیے ہے اس کو بہترین حالت عدل پر ہم نے پیدا کیا اور عدل ہی خیر کی حقیقت ہے (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم)۔ ٢۔ ساتھ ہی اس نے غلطی کا ازالہ کیا جس کی وجہ سے انسان نے اپنی فطرت کے متعلق ایسی عظیم الشان غلطی کی اس کی بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ انسان کی فطرت کے معلوم کرنے کے لیے انسان کے اعمال کو دیکھتا ہے اور برے انسانوں کو دیکھ کر فطرت کی برائی پر استشہاد کرتا ہے پس سورۃ واتین نے انسانی اعمال کی عظمت وجبروت کے لیے انسان کی عظمت وشرف سے استشہاد کیا اور یہ کہا کہ تم گرے ہوؤں کو دیکھ کر اپنی فطرت کو کیوں گرا ہوا سمجھتے ہو؟ ان کو نہیں دیکھتے جوگرنے کی جگہ بلند ہوئے؟ یہ لوگ جوفطرت صادقہ کو قائم رکھ کربلند ہوئے وہی لوگ ہیں جن کی طرف (والتین والزیتون، وطور سنین، وھذالبلدالامین) کے تین جملوں میں اشارہ کیا گیا ہے اور یہی وہ انعام یافتہ الٰہی گروہ ہیں جن کی راہ صراط مستقیم ہے اور جن کی راہ کی طلب سورۃ فاتحہ میں سکھلائی گئی ہے (صراط الذین انعمت علیھم) ان کی راہ جن پر خدا نے انعام کیا یہی حزب اللہ ہیں یہی اولیاء اللہ ہیں یہی خیرالبریہ ہیں یہی البصیر ہیں اور یہی اصحاب الجنہ ہیں۔ ٣۔ رہا اعمال انسانی کی بوقلمونی اور خیر وشر کا سوال تو یہ اس لیے نہیں کہ انسان کی فطرت برائی ہے اس کی فطرت تو عدلوخیرخواہی ہے البتہ وہ جب اس کو ضائع کردیتا ہے اور اعمال سافلہ میں مبتلا ہوجاتا ہے تو جس طرح اس کی خلقت سب سے اعلی تھی اسی طرح اس کا اکتساب عمل اس کو سب سے زیادہ ادنی بھی بنا دیتا ہے حتی کہ اپنی حقیقت انسانی کو مسخ کرکے بسا اوقات چارپایون اور درندوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے تم یہ حالت مسخ دیکھ کر کہتے ہو کہ یہ فطرت ہے مگر نہیں سمجھتے کہ فطرت نہیں خارج وکسب وعمل ہے پس اعمال انسانی میں خیروشر اور عظمت وتسفل جو تمہیں نظر آتا ہے اس میں تفریق کرو، نیکی وعظمت اس کی خلقت ہے اور شر تسفل اس کی ضلالت عمل اور ضیاع فطرت۔ یہ اس کا عمل ہی ہے جس نے اسے چارپایوں سے بھی بدتر بنادیا ہے (ثم رددناہ اسفل سافلین) یعنی ادنی سے بھی ادنی تر حالت تک گرے ہوئے وہی ہیں جن کے نام مغضوب ورضالین ہیں پھر حزب الشیطان، اولیاء الطاغوت، شرالبریہ الاعمی اور اصحاب النار بھی وہی ہیں۔ ٤۔ یہ غلطی اس لیے ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے قانون جزا ومکافات سے بے خبر ہو اس کا قانون ہے کہ ہر بیج پھل لاتا ہے اور اسی طرح انسان کاہر عمل ایک نتیجہ پیدا کرتا ہے زہر جب کھایاجائے گا انسان مرے گا اور معصیت جب کبھی کی جائے گی عذاب آئے گا پس اعمال کی جزا ہی سے تمام نتائج پیدا ہوتے ہیں اگر تمہارے اعمال فطرت صالحہ یعنی دین الٰہی کے مطابق ہیں اور تم نے اس کو ضائع نہیں کیا ہے تو تم اپنی فطری بڑائی اور نیکی حاصل کرو گے اگر تم نے ضائع کردیا پھرتم مسخ ہوجاؤ گے اور تم سے برا جانور زمین کی پیٹھ پر اور کوئی نہ ہوگا جانور نے اپنی اصلی فطرت کو ضائع نہیں کیا۔ وہ سافل ہے تم نے اپنی فطرت ہی کو ضائع کردیا پس تم سافلوں سے بھی اسفل اور بد سے بھی بدتر ہوگئے۔ ٥۔ پس جن لوگوں نے اپنی فطرت کو عمل غیر صالح سے ضائع کردیا وہ انسانیت سے گر گئے مگر جنہوں نے ایمان باللہ سے انکار نہ کیا اور ایسے اعمال اختیار کیے جو صالح ہیں اور اس لیے نور فطرت کو قائم رکھنے والے اور چمکانے والے ہیں سو وہ اعلی سے اعلی مراتب انسانیہ تک فائز ہوئے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوگا اس دوسری جماعت کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے عمل صالحہ کا درخت ہمیشہ پھل دے گا ان کے نتائج حقہ کی برکتیں اور نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی وہ اسفل سافلین کی حالت میں نہ ہوں گے کہ فنا اور ہلاکت ان پر طاری ہو وہ شجرہ خبیثہ نہیں ہیں بلکہ شجرہ طیبہ ہیں لہذا فرمایا (فلھم اجر غیر ممنون)۔