وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اس کاموضوع جزاوسزا کا اثبات ہے اور اس میں اولوالعز پیغمبروں کے جائے ظہور کی قسم کھاکر بتایا گیا ہے کہ انسان نفسانی خواہشات کی پستی سے اسی صورت میں نجات پاسکتا ہے جبکہ ایمان اور اعمال صالحہ کی دولت سے مالامال ہو۔ تفسیر سورۃ تین۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر سورۃ والتین سے پہلے اسی سورۃ کی تفسیر از قلم مولانا مظہر الدین شیرکوٹی آپ کے مطالعہ میں آئے گی جوالبلاغ، ١٧ دسمبر ١٩١٥ میں شائع ہوئی۔ اس پر مولوی وصی احمد صاحب بلگرامی نے مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمت میں چند ضروری استفسارات پیش کیے جن کے جواب میں مولانا نے تفسیر سورۃ تین لکھی، جوالبلاغ ٢٥ فروری اور ٣ مارچ ١٩١٦ میں شائع ہوئی قارئین کے استفادہ کے لیے یہ پوراسلسلہ شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ تفسیر سورۃ والتین (مولانا مظہرالدین شیرکوٹی)۔ انسان جب غوروفکر کی آنکھیں کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ نیچے زمین ہے اور سر پر آسمان ہے ان کی وسعت اس کے خیال سے بالاتر اور ان کی قدامت اس کے ادراک سے باہر ہے ایک طرف وہ عظیم الشان پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جن کی چوٹیاں نامعلوم بلندیوں تک مرتفع ہیں دوسری طرف بلاخیزسمندروں کی لہریں اس کے اردگرد طوفان خیز ہیں جن کے سامنے انسان کی ہستی توکی اس کی زمین بھی کائی کی طرح چھٹ جاتی ہے ان عظیم ترین ہستیوں سے قطع نظر کرکے جب وہ چھوٹے چھوٹے جسموں (ایٹم) کی قوت پر توجہ کرتا ہے تو اور زیادہ متعجب ہوتا ہے کہ ہستی وحیات کے یہ حقیر ذرات طاقت وعمل کی کیسی حیرت انگیز مثالیں اپنے اندر رکھتے ہیں۔ وہ ڈسنے والے سانپوں کی برق رفتاری پرخیال کرتا ہے، خونخوار جانوروں کی طاقت کو دیکھتا ہے ابر کے ایک معمولی ٹکڑے سے برے بڑے شہروں کا زیروزبر ہونا اس کے سامنے آتا ہے پھونک سے اڑ جانے والی چنگاری کی قوت اس کے پیش نظر ہوتی ہے اور جب ان تمام مناظر قدرت کو اپنے سامنے لاتا ہے تو بے اختیارپکاراٹھتا ہے کہ اے ہستی انسانی، تو کیا ہے؟ تیری حقیقت کچھ بھی نہیں بحر وجود میں پانی کا ایک بلبلہ، عالم خلق میں ہوکا ایک جھونکا میدان تکوین میں مجموعہ غبارکا ایک نقش پا۔ لیکن سورۃ مبارکہ، والتین، میں قرآن حکیم نے اس خیال کی تردید فرمائی ہے اور شرف انسانی کے دلائل مبینہ طور پر پیش کیے ہیں اس نے بتایا ہے کہ عالم وجود کی دوسری چیزوں کے ساتھ انسان کو کیا نسبت ہے بلاشبہ انسان پانی کا ایک بلبلہ ہے مگر کون سا پانی ؟ وہ جو آب بقا کا ایک سرچشمہ ہے کچھ شک نہیں کہ انسان ہواکا ایک جھونکا ہے مگر کس ہوا کا؟ وہ جو باغ وحدت کی ایک لہر ہے ہاں یقینا انسان کا وجود ایک نقش پا ہے مگر کیسا نقش پا؟ وہ جو وجود بحث کاسب سے زیادہ مکمل نشان ہے خلاصہ یہ کہ سریرظہور کا تاجدار اور منصہ شہود کی رونق وجود انسانی ہی ہے۔ انسان کا اشرف خلائق ہونا ایک ایسا بین دعوی ہے جس کے لیے احتیاج دلیل نہ تھی لیکن اپنی ہستی سے خود فراموشی ہی کبھی کبھی مانع کارہوجاتی ہے اور اکثر دنیا کے بڑے بڑے اعمال صرف اسی لیے ناتمام رہ جاتے ہیں کہ ان کے کرنے والے اپنے آپ کو نہایت ضعیف وناتواں سمجھ کر ہمت ہاردیتے ہیں لہذا ایک ایسے ناموس الٰہی کے لیے جو تبیانا لکل شئی، اور نور مبین کی حیثیت رکھتا ہوضروری تھا کہ انسانی فضیلت کی کامل حقیقت کو اس کے سامنے صاف صاف پیش کردے۔ علاوہ ازیں دین حنیف کے اس اہم ترین رکن کی ایک تمہید اور مقدمہ بھی تھا جسے حضرت شاہ والی اللہ کی اصطلاح میں، قانون مجازات کے لقب سے تعبیر کروں گا۔ پس اس سورۃ کے مضمون کی تقسیم دو قسموں میں ہوسکتی ہے۔ : ١۔ اشراف انسانی کا ثبوت۔ ٢۔ قانون مجازات۔ مبحث اول : (والتین والزیتون، وطور سنین، وھذالبلدالامین، لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم)۔ ” انجیر، زیتون، طورسینا، مکہ معظمہ اس دعوی پر شاہد ہیں کہ ہم نے انسان کو بہتر سے بہتر حالت میں پیدا کیا ہے۔” تقویم“ کی تفسیر میں قاضی بیضاوی تحریر فرماتے ہیں۔” تعدیل بان خص بانتصاب القامۃ وحسن صورۃ واستجماع خواص الکائنات ونظائر سائر الممکنات۔ (انتھی)۔ تقویم کے معنی تعدیل کے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ انسان سروقامتی حسن صورت اور کائنات کے تمام خواص اور تمام ممکنات کی تمثیلات کا مجموعہ ہے۔ اسی مضمون کو امام رازی ان الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔ تقویم کے معنی کسی شے کا ایسی حالت میں پیدا کرنا جس کے لائق وہ اپنی تالیف وتعدیل میں تھی ایسے موقع پر جب کوئی چے چند چیزوں سے ترتیب دے کربنائی گئی ہو اور وہ درست ہوتواہل عرب کہا کرتے ہیں، قومتہ تقویما فاستقام وتقوم۔ محدث ابن جریر طبری اپنی شرہ آفاق تفسیر میں تقویم کے مختلف معنی نقل کرتے ہوئے اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر فرماتے ہیں۔ تقویم کے معنی میں بہترین قول یہ ہے کہ اس کے معنی احسن واعدل حالت کے ہیں۔ یہ تینوں مفسر اور ان کے سوا اور مفسرین بھی اگرچہ ترتیب الفاظ تعبیر مقصد میں مختلف ہیں تاہم منشاء ومال سب کا ایک ہے یہ ضرور ہے کہ بیجاوی نے نہایت مفصل اور جامع الفاظ میں تقویم کا مفہوم ادا کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ، کیا بہ لحاظ حسن صورت اور کیا بہ لحاظ بلندی قامت انسان تمام ممکنات کی تمثیل اور کل کائنات کے خواص کا مجموعہ ہے اور یہ انسانی شرف کی بہت بری دلیل ہے کہ جواوصاف (مثلا حیوانات میں حرکت اور ارادہ وانتقام، نباتات میں نشوونما ملائکہ میں طاعت رب کریم وغیرہ وغیرہ) فردا فردا دیگر مخلوقات میں موجود ہیں وہ سب کے سب ایک وجود انسانی میں مکنون ہیں۔ فلینظر الناظرون ویمحص المشتاقون۔ اسی مضمون کو قرآن حکیم نے دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے صرف اجمال اور تفصیل کافرق ہے ورنہ مقصود ایک ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : (وصورکم فاحسن صورکم)۔ اے انسانو اللہ تعالیٰ نے تم کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔ یہاں صورت سے مراد صرف نقش ونگار جسمانی یاخدوخال نہیں بلکہ صورمعقولہ وقوائے ادراکیہ بھی ہیں، کماصرح الاصفہانی فی الذریعۃ والمفسرون فی تفاسیرھم) دوسری جگہ بہت زیادہ تفصیل سے اس طور پر مذکور ہے۔ (ولقد کرمنا بنی آدم حملناھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبا۔۔۔ تا۔۔ تفضیلا۔ ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا فرمائی اور تری وخشکی میں ان کے چلنے کے لیے سواریاں بنائیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کودیں یہاں تک کہ مخلوقات کے اکثر حصہ پر ان کو فضیلت وسیادت حاصل ہے۔ اور ان تمام آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاکرپڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصود فضیلت انسانی کا ثبوت ہے اور سورۃ تین میں اس دعوی کی کو مدلل پیش کیا گیا ہے اور ثبوت میں چار دلیلیں بصورت قسم پیش کی گئیں ہیں۔ محققین نے محاورات عرب واشعار جاہلیت سے اس کا فیصلہ کردیا ہے کہ قسم اپنے مابعد بیان کے لی شہادت ودلیل ہوتی ہے امام رازی سوہ ذاریات کی تفسیر میں لکھتے ہوئے شروع ہی میں تحریر فرماتے ہیں :” تمام وہ قسمیں جو اللہ نے قرآن مجید میں بیان فرمائی ہیں سب کی سب قسم کی صورتوں میں دلائل ہیں جس طرح کوئی اپنے محسن کاشکریہ ادا کرنے کے لیے کہتا ہے، وحق نعمتک الکثیرۃ انی لا ازال اشکرک۔ اور اس قول میں نعمتوں کا ذکر دوام ام شکر کے لیے سبب قرار دیتا ہے۔ اس مسئلے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب ہمارا فرض ہے کہ ہم یہ ثابت کریں (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم) پر یہ چار قسمیں ہیں۔ تین۔ زیتون۔ طورسنین۔ بلدامین۔ کیونکر دلیل ہوسکتی ہیں؟۔ تین وزیتون کی شہادت : تین کے معنی بعض مفسرین نے دمشق کے ایک پہار اور بعض نے بیت المقدس کے ایک پہاڑی مقام کے بیان کیے ہیں لیکن یہ سب اقوال مرجعح ہیں اور ان کے ضعف کی طرف بیضاوی وغیرہ مفسرین نے اشارہ بھی کیا ہے مناسب ہی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اسکے معنی اسی پھل کے کیے جائیں جس کو ہم اپنی زبان میں انجیر کہتے ہیں اسی طرح زیتون بھی مراد وہی پھل ہے جس سے روغن نکالا جاتا ہے اور جو اہل عرب کی ہر دل عزیز وجان پردر غذا ہے۔ ابن جریر لکھتے ہیں :” حضرت حسن سے مروی ہے کہ قرآن مجید میں تین سے مراد وہ پھل ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور زیتون سے مراد بھی وہی ہے جس سے روغن نکالتے ہیں۔ امام رازی اپنی تفسیر میں تین وزیتون کے معنی بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس کا قول نقل کرتے ہیں :” اے اہل عرب) تین وزیتون سے مرادیہی تمہارے مشہور پھل ہیں۔ ان دونوں الفاظ کے معنی متعین ہوجانے کے بعد غور کرو کہ یہ شرف انسانی برکس طرح شاید ہیں؟ تم جانتے ہو کہ انجیرایک نہایت چھوٹا ساپھل ہے لیکن غذا ودوا میں اس کے بے شمارفوائد ہیں ذائقہ کے لحاظ سے نہایت شیریں ہے باعتبار فوائد کے قاع بلغم، ملین طبع، مطہر کلیتین، مسمن بدن وغیرہ اس کے معمولی خواص ہیں۔ پس انجیر شاہد ہے کہ جس طرح یہ جسم صغیر ہوکربے شمار فوائد کا مجموعہ ہے اسی طرح وجود انسانی بھی جسما مختصر لیکن مختلف قوتوں کا پتلا گوناگوں جذباتکاسرپا، بوقلموں اسرار کا مجموعہ ہے بے شک اس کی مٹھی بھرہڈیوں کا ڈھانچہ عالم تکوین کی غیر محدود کوہ پیکر ہستیوں کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتا مگر ان ہڈیوں میں وہ طاقت ہے جوپہاڑوں کی چوٹیوں اور سمندروں کے طوفانوں کو مسخر کرسکتی ہے۔ دوسری شہادت زیتون کی ہے وہ یہ کہ جس طرح زیتون میں روغن حلول کیے ہئے ہے اور زیتون کی قدر اس کے روغن ہی کی وجہ سے ہے اسی طرح انسان کے جسم میں روح انسانی کا حلول ہے اور اس کا شرف بھی اس کی اس روح ہی سے ہے ورنہ انسان مٹی کا ایک ڈھیر یا حشرات الارض کی گھناؤنی غذا ہے اور بس۔ یہاں پر دوسوال اور قابل غور ہیں ایک یہ کہ جناب باری تعالیٰ نے زیتون ہی کو شہادت کے لیے کیوں منتخب کیا جبکہ یہ فائدہ دیگر روغن دار پھلوں یا اسی قسم کے تخموں سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عرب جو قرآن حکیم کے اولین مخاطب ہیں ان کے سامنے جو چیز بکثرت موجود تھی وہ زیتون ہے اور اس سے جوفوائد غذا ودوا کے اعتبار سے انہیں حاصل ہورہے تھے وہ بالکل ان پر واضح وآشکارا تھے۔ دوسراسوال یہ ہوسکتا ہے کہ جب کہ روح جسم سے اعلی واشرف اور اس پر حاکم ہے تو اس کی شہادت کو جسم کی شہادت سے مقدم ہونا چاہیے اور اس لیے والتین کی جگہ والزیتون کے لفظ سے سورۃ کو شروع کرنا چاہیے تھا۔ یہ درست ہے مگر یاد رکھنا چاہییکہ دلیل واثبات کے موقع پر مقدم ہونے کا وہ چیزیں حق رکھتی ہیں جوتجارت ومحسوسات کے دائرہ میں ہوں قطع نظر فلسفہ جدیدہ کے جس کی بنیاد کاسنگ اولین ہی تجربہ ہے اگر ارسطو وافلاطون کے فلسفہ کو دیکھو اور کم ازکم علامہ بہاری کی سلم کے آخر میں برہان کی بحث سامنے رکھو تو معلوم ہوجائے گا کہ دلیل مفید یقین وہی ہوسکتی ہے جس کے مقدمات کی ترتیب امور یقینہ اور تجربہ پر ہو یا کم ازکم ایسے مقدمات کی طرف ان کی تحصیل ہوتی ہو بہرحال جسم اور اس کے فوائد محسوس بالکل ظاہر ہیں اور روح غیر محسوس ہے پس اس لیے جسم کی شہادت کو حق تھا کہ وہ روح کی شہادت پر مقدم ہو اور سورۃ کو والتین ہی کے لفظ سے شروع کیا جائے۔ نکتہ : زیتون کے لفظ میں ایک اور لطیف اشارہ ہے وہ یہ کہ جب زیتوں سے روغن نکال لیا جاتا ہے تو اس سے دوسرے فوائد کے علاوہ چراغ بھی روشن ہوسکتا ہے اور وہ اپنے اردگرد کی تمام چیزوں کو منور کردیتا ہے اسی طرح وہ روح جو قفس عنصری میں مقید ہے اگر بقدر طاقت بشری اس کو بھی علائق مادیہ سے پاک وصاف کرلیاجائے تو پھر اس سے بہت سی تاریک روحیں منور اور ظلماتی قلوب روشن ہوسکتے ہیں۔ طورسینین کی شہادت : طورسینین کی تفسیر میں تمام مفسرین اپنی عادت قدیم کے موافق بہت سے احتمالات بیان کرتے ہیں مگر دراصل یہ سب تکلف ہے اس سے مراد وہی پہاڑ ہے جو حضرت موسیٰ کے لیے جلوگاہ ربانی اور بنی اسرائیل کے لیے قانون شریعت کا مہبط تھا ابن جریرنے بھی اسکوپسند فرمایا ہے چنانچہ لکھتے ہیں : کہ صواب ترقول اس بارے میں اس شخص کا ہے جو کہتا ہے کہ طورسینین سے مراد مشہور معروف پہاڑ ہے۔ یہ شہادت ایک عجیب وغریب شہادت ہے جوثابت کرتی ہے کہ ضعیف ناتواں انسانی پتلے میں مادی ترقی کی قوت کہاں تک ہے اور وہ اپنے کمال کے بازوؤں سے اڑ کر کہاں تک پہنچ سکتا ہے اس سے پہلے تم بنی اسرائیل کی حالت پر غور کرو وہ ایک ایسی قوم تھی جس نے اسرائیلی برکت اور حضرت ابراہیم کے خدا کے وعدے کوفراعنہ کے قدموں میں پامال کردیا تھا اس بدبخت قوم نے فطرت کی سب سے زیادہ گراں قدر نعمت (یعنی حریت) کو ہمیشہ غیروں کی چوکھٹوں پر قربان کیا۔ یہی بدنصیب بنواسرائیل تھے جو انسانی عبدیت کے خون سے پیدا ہوئے غلامی کے دودھ سے پہلے، استبداد کی آب وہوا میں بڑھتے رہے یہاں تک کہ شرف قومی کا پاک جذبہ، جس کی حفاظت دل کے خون اور دماغ کی روح سے ہونی چاہیے تھی فراموش کردیا گیا آہ، صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے دیکھا کہ ظالم مصریوں کی خون آشام تلواریں اپنی پیاس ان کے معصوم بچوں کے خون سے بجھاتی ہیں اور ان کی محذرات (مستورات) کی عصمت فرعونیوں کے وحشت کدہ پر قربانی ہورہی ہے۔۔۔ (یذبحون ابناء ھم ویستحیون نساء ھم)۔ مگر تاہم اس بے حسی کی صدا سے باز نہ آئے کہ (فاذھب انت وربک فقاتلا اناھھنا قاعدون)۔ بدقسمت عبرانیوں کی یہ حالت تھی مگر جب جبل طورپ رموسی (علیہ السلام) کو قانون ملت عطا ہوا اور اس پرآئندہ نسل نے عمل کیا تو پھر وہ حالت ہوئی کہ جوغلام تھے وہ شہنشاہ ہوگئے جس قوم کو مصر میں سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے بھی پیٹ بھرنے کے لی چین سے نصیب نہیں تھے اس کے قدموں پر شام کے خزانے جمع کیے کنعانیوں اور حبشیوں کے دل فریب سبزاہ ساروں کی یہ قوم مالک ہوئی، اموریون اور فرزیوں، حویوں، اور بیوسیوں کی دودھ وشہد بنانے والی زمین ان کے قبضہ میں آگئی اس رعب وشوکت نے مصر کے ایونوں کو ہلاکررکھ دیا یہ سب کیوں ہوا؟ صرف اسلیے کہ پہلے وہ صراط مستقیم وراہ حق سے بے خبر تھی اور اب اس پر عامل ہوگئی پہلے وہ اس قانون الٰہی سے جوطور پرنازل ہوجوترقی کے بے شمار اسرار سے معمور تھا محروم تھی اور اب اس کی پرستار بن گئی پس اللہ نے اسی طور کو جس سے ایک بہت بڑی قوم کے عروج وزوال کی تاریخ وابستہ تھی بطورشاہد کے پیش کیا کہ دیکھو یہ طور شاہد ہے کہ انسان کو ہم نے اشرف ترین پیدا کیا کیا باوجود ایک حقیر وضعیف ہستی ہونے کے اس کی پروز سب سے زیادہ بلند نہیں ہے؟۔ جس طرح کہ پہلے جسم کی شہادت اور اس کے بعد روح کی شہادت پیش کی گئی تھی اسی طرح تیسری شہادت میں پہلے جسمانی ومادی ترقی کا ثبوت دے کرچوتھی شہادت، البلدالامین، اس کی روحانی ترقی کی دلیل قرار پائی۔ بلدامین کی شہادت : امینــ“ امن سے مشتق ہے جس کے معنی حفاظت کرنے کے ہیں امانت کو امانت اسی لیے کہتے ہیں کہ اس کی حفاظت کی جاتی ہے امین اگر اسم فاعل کا صیغہ ہے تو اس کے معنی ہوں گے حفاظت کرنے والا، یامثل قتیل بمعنی مقتول اسم مفعول کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے تو اس کے معنی ہوں گے محفوظ، بہرحال دونوں صورتوں میں بلدامین سے مراد مکہ معظمہ ہے۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہے کہ خانہ کعبہ فار عن الدم (جوشخص کسی کو قتل کرکے بیت اللہ میں آچھپے) کے قصاص سے اور جانوروں کے شکار سے جبکہ وہ حرم میں داخل ہوجائیں حفاظت کرنے والا ہے کیونکہ نص قرآنی میں دوسری جگہ حرما آمنا موجود ہے۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ یہ کعبہ محترمہ قتل وغارت، جنگ جدل وغیرہ سے محفوظ ہے یہ چوتھی قسم ہے اور انسانی شرف کے جس شعبہ پر شرط لائی گئی ہے اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں اس کی تفصیل کے لیے ایک مختصر مقدمہ پیش نظر رہنا ضروری ہے۔ محبت کے دو درجے ہیں ایک یہ کہ محبوب اور اس کے جمیع متعلقات سے الفت ہو، اس کے دریار ولباس کی یاد بھی وہی اثر دل پر کرے جو اس کی چشم بہار کے اشارے کرتے ہیں امراء القیس نے جب ایک سفر میں اپنی محبوبہ کے قیام کو آثار کو دیکھاتوبے خود ہوگیا اور یاران سفر سے کہنے لگا : قفانبک من ذکری حبیب ومنزل بسقط للوی بین الدخول فحومل۔ دوسرامرتبہ یہ ہے کہ محبوب کے سواکسی سے محبت نہ ہو اس کاروئے آتشین قلب میں وہ آگ روشن کردے کہ ماسوا کی الفت خاکستر ہوجائے اور یہ عالم ہو کہ۔۔۔۔۔ جدھر دیکھتا ہوں ادھر توہی تو ہے۔ یہ مرتبہ پہلے سے اعلی ہے اور اسی کا نام مرتبہ خلت ہے جس کانمونہ حضرت ابراہیم واسماعیل تھے حضرت ابراہیم کے لیے تو یہ مقام ظاہر ہے کہ جب ان سے ان کے جگر گوشہ وچشم وچراغ اسماعیل کی قربانی کے لیے ارشاد ہوا تو وہ بلاتامل تیار ہوگئے اور اس پر حضرت باری سے یہ خطاب عطا ہوا۔ (واتخذاللہ ابراہیم خلیلا) اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا۔ لیکن حضرت اسماعیل بھی اس مقام خلت سے محروم نہ تھے چنانچہ جب راہ حق میں ان کو قربان کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے بلاتامل عرض کیا،(یا ابت افعل ماتومر۔ الخ) یعنی اے باپ اگر آپ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں تو میں بھی قربان ہونے کے لیے حاضر ہوں۔ کعبہ مکرمہ جوانہی پرستاران حق وفد اکاران ملت کی بناکردہ تعمیر ہے گویاتعلیم خلت کی درسگاہ ہے جو یہ بزرگوار تعمیر کرتے جاتے تھے اور اپنے جذبہ عشق میں معمور ہوکرکہتے جاتے تھے (ربنا تقبل منا انک۔۔۔ تا۔۔۔ الحکیم۔ البقرہ ع ١٥)۔ ترجمہ۔ کہ اے ہمارے خدا توہمارے اس کام بنائے کعبہ کو قبول فرما اس لیے کہ توہی ہماری دعا کوسننے والا اور ہمارے کاموں کو جاننے والا ہے اے پروردگار اب تو ہم کو اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری نسل سے ایک مطیع ومنقاد امت قائم کر، اے خدا اپنے ارکاب عبادت ہم کو ہدایت کر اور ہم پر رحمت نازل فرما کیونکہ تو ہی تواب رحیم ہے اور پھر اس امت میں ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو ان میں سے ہو وہ رسول تیرے احکام کوسنادے اور تیری کتاب وحکمت کی باتیں ان کو سکھا دے تو سب کچھ کرسکتا ہے اس لیے کہ تو سب پر غالب اور سرچشمہ حکمت ہے۔ پس درسگاہ خلت یعنی بیت ابرہیمی اس پر شاہد ہے کہ انسانی روح کہاں تک ترقی کرسکتی ہے اور اس کی انتہا کیا ہے تم کو معلو ہوگیا کہ اس کی ترقی اس حد تک ہے جہاں پہنچ کر ایک ہی مقصود ایک ہی مطلوب اور ایک ہی شاہد مشہود سامنے ہوتا ہے جس کی چشم وابرو کے اشاروں اور دہن حق طلب کی مسکراہٹ پر اپنی عزیز ترین چیزوں کو بھی قربان کردیا جاتا ہے۔ اے گم گشتگان طریق حق۔ اگر دین حنیف تمہارے ہاتھوں میں، اسماعیلی خون تمہاری رگوں میں اور ابراہیمی دعا کی امت مسلمہ تم ہو تو پھر تمہارے لیے ذریعہ فلاح ونجات وہی خلت وہی جوش محبت وہی سودائے عشق وہی طریق ابراہیمی ہے جس کی شہادت تمہارا کعبہ مکرمہ بزبان حال پیش کررہا ہے اور اس کی صدا اس کے درودیوارے آرہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس امر کو مفصل بیان کیا ہے کہ روح وجسم کا وجود اور ان کا اجتماع دوسرے جانداروں میں بھی ہے لیکن حصول سلطنت اور مقام خلت، جن پر تیسری وچوتھی قسم شاہد ہے یہ انسان ہی کے ساتھ مخصوص ہے ان دوآخری خصوصیتوں میں سے پہلی قوت حیوانیہ انسانیہ اور دوسری قوت ملکوتیہ کا خاصہ ہے پس ان خصائض وقوی، ان فوائد ومنافع کے انکشاد کے بعد کون ہے جو اس میں شک کرسکتا ہے۔ (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم)۔