يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو (رسول اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ (١) پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ (٢)
41:أُولِی الْأَمْرِ: سے مراد اکثر مفسرین کے مطابق مسلمان حکمران ہیں، جائز امور میں ان کے احکام کی اطاعت بھی مسلمانوں کا فرض ہے، البتہ یہ اطاعت اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم نہ دیں جو شرعاً جائز ہو، اس بات کو قرآن کریم نے دو طرح واضح فرمایا ہے، ایک تو اس طرح کے اصحاب اختیار کی اطاعت کا ذکر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد فرمایا ہے، جس میں یہ اشارہ ہوگیا کہ حکمرانوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہے، دوسرے اگلے جملے میں مزید صراحت کے ساتھ بتادیا کہ اگر کسی معاملہ میں یہ اختلاف پیدا ہوجائے کہ آیا حکمرانوں کا دیا ہوا حکم صحیح اور قابل طاعت ہے یا نہیں، تو اسے اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کردو، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھو، اگر وہ قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا حکم واپس لیں اور اگر وہ حکم قرآن وسنت کے کسی صریح یا اجماعی طور پر مسلم حکم کے خلاف نہیں ہے تو عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس پر عمل کریں۔